فرح  نے قریب پڑا کشن اٹھا کر  اسے دے مارا جسے اس نے بڑی آسانی سے کیچ کرکے واپس پھینک دیا تھا۔ کشن واپس اسی پوزیشن میں صوفے پر جاپڑا تھا۔ 
”بابا جان آپ ہمیں کیرا دکھاؤ گے نا۔۔۔؟“ دختر نیک اختر نے دوبارہ یاد دہانی کروائی۔
” جو کہو گے کرونگا بٹ فرسٹ۔۔یو ہیو ٹو فنش یور ونٹر ویکیشن ٹاسک۔۔۔“  کمرے میں ایک بار پھر سنجیدگی امڈ آئی تھی ۔دونوں بچوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کمرے سے نکل گئے۔
فرح اب وقار کوعباس کے ساتھ صبح ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتا رہی تھی۔  دونوں ہنس رہے تھے۔
                         ***--------------------------------------------***        
اگلے دن کی میٹنگ میں عباس نے جاء  ٹیم  کے ممبرز کو گزشتہ دن بابا سے ہونے والی گفتگو اور اس پر عائد شرط کے بارے میں بتایا۔ بچوں نے اس شرط کو جلد سے جلد پورا کرنے کا عہد کرلیا۔
میٹنگ جلد برخاست ہوئی اور سب اپنے گھر پہنچ کر کام میں جت گئے۔ اور عباس نے اس کے ساتھ ایک اور نیک کام بھی انجام دیا تھا ۔۔۔۔۔گھر گھر جاکر وقار کی جانب سے پیغام۔۔۔۔۔
”(!۔....oops)“وقار دیوارگیر آئینے کے سامنے کھڑا شیونگ کریم سے لیپا ہوا تھا۔  جب آئینے میں اپنے بچوں کو دیکھ کر مسکرایا ۔اس کے پیچھے چند اور بچے تھے۔ ان کے بعد کچھ بڑے داخل ہوئے۔ ان کے ساتھ ان کے والدین، بھائی، بہن ، بھابھیاں، ننھیال ددھیال سب تتلیوں کی طرح اندر تشریف لا رہے تھے۔ یہ منظر اسے ہڑ بڑا دینے کے لیے کافی سے کچھ زیادہ ہی ثابت ہوا تھا ۔
اس نے  فورا سے پیشتر ٹاول سے شیونگ کریم اتاری اور کپڑے لیے بیت الخلاء میں گھس گیا۔ اتنے مہمان اچانک ۔۔۔اتنے تو کبھی شادی میں اکٹھے نہیں ہوتے۔۔۔! لحظہ بھر میں اس کا خوبصورت بنگلہ کسی پبلک بلڈنگ کی طرح لگنے لگا تھا۔
 گھر کے مکینوں کو بھی اچانک  آئے مہمانوں پر خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔
”اسلام علیکم بھابی جان“ یہ وقار کی بہن تھی۔ عمر 24 کے قریب تھی۔ 
”وعلیکم السلام ،کیسی ہو “فرح  نے مسکرا کر بازو واکیے۔
” ٹھیک ہوں بھابی “اس نے اس سے الگ ہوتے ہوئے جواب دیا۔ 
”اور ہمارا آنے والا مہمان کیسا ہے؟“ فرح نے سرگوشی میں پوچھا ۔وہ جھینپ گئی تھی۔ دفعتا اس کی نظر بھائی پر پڑ گئی تھی۔
” اسلام علیکم بھائی“اس  نے دور سے آواز دی تو وہ سیدھا ادھر ہی چلا آیا۔ سیاہ ریشمی بالوں کا پف گیلا ہونے کے سبب جما ہوا تھا اور گردن کے پیچھے سے پانی کے قطرے ٹپک کر کالر میں جذب ہو رہے تھے ۔
”وعلیکم السلام میری گڑیا کیسی ہے؟“ وقار نے بہن کو سینے سے لگاکر سر پر بوسہ دیتے ہوئے شفقت سے پوچھا تھا۔ وہ مزید اس سے لپٹ گئی تھی  اور بھائی کے کندھے کو چوما اور نم آنکھوں سے مسکرائی۔ 
”اچھی ہو ں بھائی خدا آپ کو ہمارے سر پر ہمیشہ سلامت رکھے۔۔۔“
” تمھارے شوہر نامدار نہیں آئے۔۔۔؟“ وہ بہن کی نامکمل فیملی کو دیکھ کر مسکرا کر پوچھ گیا تھا۔
”وہ ر ہے۔۔۔“ اس نے سنہری بالوں اور گوری رنگت والے لڑکے کی جانب اشارہ کیا جو انہیں کی جانب آ رہا تھا۔ بہن تو بہن، بہنوئی اس کا زیادہ دیوانہ لگتا تھا۔ اتنی گرم جوشی سے اور اتنا دیرپا معانقہ کیا کہ باقی سب سمجھے شاید آج کی تاریخ میں ہمیں اس سے ملنا نصیب نہ ہوگا۔
یہ دونوں بچپن کے دوست تھے۔ وہ وقار کا حد سے زیادہ” مشتاق“ تھا 
اور وقار نے بہن دے کر اس رشتے کو مزید  گہرا کر لیا تھا ۔
”سو۔۔۔ آج کا دن بہتر تھا اکٹھا ہونے کے لئے رائیٹ؟“ وقار کو یہی فقرہ صحیح لگاتھا۔ 
”جی بھائی آپ نے بلایا تو سب چلے آئے“ 
”میں نے ۔۔۔؟“اس نے زبان دانتوں تلے دی۔
”جی بھائی جان ۔۔۔آپ کا کہلا ہمیں پچھلے ایک ہفتے سے مل رہا تھا 
کہ سنڈے کو سب کیرا دیکھنے آئیں“ بہن کی بات سن کر وہ حیران ہوا تھا۔ 
اور پھر ایک پل لگا تھا اسے معاملہ کی تہہ تک پہنچنے میں۔۔۔۔ ظاہر ہے اس کے پیچھے اس کے فرزند ارجمند کے سوا کس کا ہاتھ ہوسکتا تھا۔۔۔! اسی کو اتنی بے تابی تھی کہ ونٹروکیشن ٹاسک کے ساتھ ساتھ گھر گھر جاکر جاء ٹیم کی پوری فیملی کو انوائٹ کرتا رہا تھا ۔
وہ بھی مسلسل ایک ہفتہ لگاتار۔۔۔۔ اور پھر پیغام جاتا بھی  وقار کی جانب سے تھا۔ اسے احساس ہو رہا تھا کہ کسی چیز کا لالچ دے کر بچوں سے کام کروایا جائے تو وہ کتنی جلدی کر لیتے ہیں۔۔۔!
”So we are here...!“ 
بہن نے وضاحت کی تو وہ واپس حال میں لوٹا ۔
”فرح آپ سب کے لئے لنچ کا ارینج کریں پھر شروع کرتے ہیں“ 
اپنی خفت کو مٹانے کا اس سے آسان طریقہ اسے نہیں سوجھا تھا ۔
مہمانوں کو دیکھ کر وہ کبھی پریشان نہیں ہوئے تھے۔ دونوں میاں بیوی مہمان کو دیکھ کر ہی بچھ بچھ جاتے تھے۔ آج وہ اتنے مہمانوں کے لیے تیار نہیں تھے، تو بھی کسی قسم کے رد وقد کی بجائے خندہ پیشانی  سے استقبال کیا تھا۔ اور مہمان نوازی میں کسر نہیں چھوڑی تھی۔
یہ سب وقار کے دوست، اساتذہ اور قریبی احباب تھے۔ جسے عباس تایا جان کہہ 
رہا تھا (وقار آغا )وہ وقار کے عظیم استاد کا بیٹا تھا ۔
اسی طرح کچھ اس کے کلاس فیلوزمع  والدین و  اولاد بھی موجود تھے ۔اور وقار کو اپنا ماضی یوں حال میں ایک ساتھ  دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا تھا۔
یہ سب بھی وقار سے بہت محبت کرتے تھے۔ لنچ کے بعد سب ہال میں جمع ہوگئے تھے۔
جہاں ان کے لیے آرام دہ کرسیاں  لگا دی  گئی تھیں۔ ہر کوئی وقار کی آمد کا شدت سے منتظر تھا۔
اور جب وہ آیا تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے Emperor O' Wonders" کی جادوئی سکرین کو روشن کیا اور پھر شروع ہوگئی

                            “کیرا”
قسط نمبر 2 بہت جلد ان شا ٕ اللہ۔۔۔۔۔۔