پنجاب کے دل لاہور میں ایک خوبصورت خاندان بستاتھا ۔جس کے سربراہ سفید ریش بزرگ ”سید نور علی رضوی“ تھے نور علی نہایت متقی ہونے کے ساتھ ساتھ خلق خدا کے ساتھ نہایت عمدہ اخلاق رکھنے والے تھے۔ 

اسی بنا پر علاقے میں ان کی بہت عزت کی جاتی تھی ۔ان کے چار پسر اور تین دختران تھیں۔ بیٹے باپ کی طرح روشن مشعل تھے تو بیٹیاں بھی خوب سلیقہ شعار تھیں۔

ان کی شریکِ حیات سیدہ خدیجہ نقوی بھی ایک کفایت شعار اور خدمت گزار خاتون تھیں۔ یوں یہ ہنستا بستا خاندان زمانے کی آلودگیوں سے پاک اور آپس کے تفکرات سے مبرا تھا۔ 

نور علی کی ساری اولاد آپس میں پیار کی ایک ڈور سے بندھی تھی مگر  ان میں دو بھائی فیروز اور پرویز آپس میں ”یک جان دو قالب“ تھے۔ 

فیروز صاحب سب سے بڑے اور پرویز صاحب کا بہن بھائیوں میں دوسرا نمبر تھا۔ اس کے بعد تین بہنیں اور آخر میں پھر دو بھائی تھے۔

فیروز اور پرویز میں آپس میں اتنی محبت تھی کہ اُنہوں” نے کچھ کہا تو یہ آگے سے بچھ گئے ۔۔اور ”اِن“ کے منہ سے کچھ نکلا تو ”اُنہوں “نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔

نور علی نے ان دونوں کی شادی اپنے بھائی سید وجاہت علی رضوی کی صاحبزادیوں سے کی تھیں جو ان کے لیے بہت بخت آور ثابت ہوئی تھیں۔ یوں یہ ہنستا مسکراتا خاندان دنیا میں جنت نشین لگتا تھا ۔خاندان بھر کے حسن کو دوبالا کرنے کے لئے اس بہار نے ان کے گلشن میں دستک دی تھی جس کی وجہ سےپورا گلشن لہلہا گیا تھا۔ فیروز اور نیلوفر کے خوبصورت باغیچے میں کھلنے والا یہ گلاب ان کی زندگی کو گلنار بنا گیا تھا ۔

ایک نہایت خوبصورت اور خوبرو شہزادہ ۔۔۔۔سرخ و سفید رنگت، سرخی مائل چمکدار سیا ہ بال، دل موہ لینے والی مسکراہٹ اور سب سے نمایاں چیزاس کی چمکدار نیلی آنکھیں جو اسے اپنے والد سید فیروز علی اور دادا سید نور علی سے ورثے میں ملی تھیں۔

مگر اُن کی آنکھوں میں اور اُس کی آنکھوں میں فرق تھا ۔ اس کی آنکھوں میں اتنی چمک اور اتنی گہرائی تھی جتنی نیلے پانیوں کے سمندر میں بھی نہ ہو۔ دیکھنے والا ایسا ڈوبے کے ہاتھ پاؤں مارنے کا ہوش بھی نہ رہے۔

 خاندان بھر سے رشتہ دار اس ”الماس“ کو دیکھنے آتے تھے ، اور دیکھتے ہی رہ جاتے تھے نور علی نے پوتے کی نظر  اتاری اورنام رکھا”وقار“

”چونکہ وقار کا مطلب ہے ایک ایسی  شخصیت، جو ہر لحاظ سے کامل ہو۔ جس پر کبھی کوئی انگشت نمائی نہ کر سکے ۔جو عظیم الشان تمکنت والا ہو۔ اسی لیے میں اپنے پوتے کا نام وقار رکھتا ہوں“ نام کے پرانا ہو نے کے اعتراض کو رد کرتے ہوئے نورعلی نے وضاحت کی اور مزید گویا ہوئے۔

” میرے بچو۔۔۔ نام کے پرانا ہونے اور اولڈ فیشن ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔نام کا انسانی شخصیت پر اثر ہوتا ہے ۔اور مجھے یقین ہے کہ میرے پوتے کا یہ نام اسم بامسمیٰ ہوگا۔۔ میرا یہ پوتا ”باوقار“ انداز سے زندگی جئے گا اور اس خاندان کا نام روشن کرے گا“

نورعلی کے دلائل سن کر کس کی ہمت تھی کہ اعتراض کرتا ۔سو سب نے خوش دلی سے قبول کرلیا تھا۔چنانچہ  فیروز صاحب کے اس ”ارزق چشم“ کا نام تھا ”سید وقار فیروز نور علی رضوی“

فیروزصاحب اور نیلوفر کی زندگی پہلے ہی بہت حسین تھی ایسے میں وقار کی آمد سے مزید دلکش ہو گئی تھی۔ سید محمد علی (نور علی کا سب سے چھوٹا بیٹا )کے بعد گھر بھر  میں یہ پہلا ننھا بچہ تھا۔

تو یہ ننھا بچہ کبھی دادا کے ہاتھوں پر ہے تو کبھی چچاؤں کے۔ کبھی پھوپھیاں لئے لئے پھرتی ہیں تو کبھی چچی جوکہ خالا بھی ہے، لے جاتی ہے