کیوں کیا مجھے نہیں ہونا چاہیے تھا“ وہ مسکرا کر اسے گھورنے لگے۔ وقار ان کی کمر میں بندھا ایپرن اور باؤل میں انڈے پھینٹتے ان کے تیزی سے چلتے ہاتھ دیکھ کر مزید حیران ہوا ۔
”نہیں ایسی بات نہیں ہے، مگر مما کہاں ہیں “وہ ان کے سامنے سلیپ کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گیا تھا۔
” وہ فرح کے گھر میں ہیں“
” وہاں کیا کر رہی ہیں؟“ اس نے حیرت سےپوچھا۔
” وہ فرح کے بھائی کو دیکھنے گئی ہیں۔ نیا مہمان جو ہے“ انہوں نے فرائی پین کو گریس کرتے ہوئے جواب دیا ۔
”سچ بابا ۔۔۔فرح کا بھائی۔۔۔؟ ہم بھی جا رہے ہیں اس سے ملنے۔۔ جا رہے ہیں نا بابا جان؟“ اس کی خوشی دیدنی تھی۔
”ہاں میری جان جا رہے ہیں۔ آپ چینج کر کے آؤ پھر کھانا کھا لو ۔پھرچلتے ہیں ۔
”لیکن آپ سینڈوچ کیوں بنا رہے ہو یہ تو بریک فاسٹ ہوتا ہے“ وہ ہنسا۔
” میں تمہارا باپ ہوں وقار ماں نہیں ۔۔جو مجھے آتا ہے وہ بنا رہا ہوں مجھے کوکنگ نہیں آتی“
” میں تو سب سیکھوں گا“وہ ہنستے ہوئے بولا۔
”جی جی ۔۔تا کہ کل کو تمھیں اپنے بچوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے“۔
مگر اس نے بات پوری سنی ہی نا تھی۔ منھ بسور کرروم کی جانب بھاگا تھا ۔وہ زور سے ہنسے۔
فریش ہو کر اس نے ظہر کی نماز پڑھی اور کھانا کھا کر پھر باپ کے سر پر آکھڑا ہوا ۔
کچھ دیر بعد وہ دونوں پرویز صاحب کے گھر تھے ۔نورعلی نے اپنے چھوٹے دونوں صاحبزادوں عون علی اور محمد علی کے ازدواج کے بعد بڑے دونوں صاحبزادوں کو علیحدہ کر دیا تھا ۔بیٹیاں بھی تینوں بیاہ دی تھیں۔
” ارے دیکھو میرے بیٹے آپ کا بڑا بھائی آیا ہے لووقار اپنے بھائی کو ہو بہو اپنے جیسا بنا دو“ نرجس نے وقار کو دیکھ کر مسکرا کر پہلے بچے سے اور پھر وقار سے کہا۔
اپنے باپ پرویز صاحب کی کاپی وہ سیاہ آنکھوں والا خوبصورت ننھا ساوجود اسی پنگھوڑے میں پڑا تھا جس میں آج سے 5 سال قبل فرح پڑی تھی۔
وقار اس کے قریب آیا۔ نیلوفر نے ننھا سا وجود اٹھا کر وقار کو تھما دیا۔ وہ اسے لے کر سامنے صوفے پر بیٹھ گیا اور اس سے پیار کرنے لگا ۔پرویز صاحب نے شہد کا پیالہ اس کی جانب بڑھایا جسے اس نے مسکرا کر تھام لیا تھا۔
” وقار میرے بیٹے کو بالکل اپنے جیسا بنا دو“نرجس نے اس سے کہا۔ وقار نے اسے گھٹی دی۔
” ارے واہ چھوٹے بھائی آپ تو بہت پیارے ہو۔ آپ تو برہان ہو“ اس نے اس کے ننھے ننھے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے رخساروں پر رکھے۔
” لیجئے نرجس۔۔ مجھے لگتا ہے تیرے سارے بچوں کے نام میرا چاند ہی رکھے گا“ نیلوفر نے ہنستے ہوئے کہا۔
” نام بھی تو دیکھو کتنا پیارا ہے برہان۔۔! مجھے تو پسند آیا“ اس نے تسلی کے لیے پرویز صاحب کی جانب دیکھا ۔انہوں نے مسکرا کر رضامندی کا اظہار کیا ۔نرجس خوشی سے نہال ہوگئی تھی۔
” واہ کتنا پیارا نام ہے سید برہان پرویز نور علی رضوی“نرجس اپنے ہی ادا کئے الفاظ پر لطف اندوز ہو رہی تھی۔
” کیا۔۔ کیا۔۔ کیا۔۔؟“ ایک تیز چیخ تھی۔۔ مانو زلزلہ ہی آگیا ہو۔سب نے گھبرا کر اس جانب دیکھا۔ جہاں سے فرح سرخ بھبوکا چہرہ لیے مثل آندھی وارد ہوئی تھی۔
0 تبصرے