”وقار بیٹا آپ ٹھیک تو ہو “ مس منزہ نے وقار کو مضطرب دیکھ کر پریشانی سے پوچھا ۔
”پتہ نہیں مس۔۔۔ جی بہت بری طرح گھبرا رہا ہے“ اس نے دل پر ہاتھ رکھا اور لمبی سانس اندر کھینچتے ہوئے جواب دیا ۔
”اٹس اوکے مائے بےبی۔۔۔ نیچے چل کر کچھ دیر آرام کر لو پھر ٹھیک ہو جاؤ گے۔ کیا کھایا تھا صبح ؟“اس نے جواب نہیں دیا تھا۔ یوں لگتا تھا گویا مضطرب حالت میں Pause ہو گیا ہو۔
”وقار۔۔بیٹا پریشان مت ہو ۔Everything will be fine“اس نے سہارا دے کر اسے اٹھایا ۔نیچے سٹاف روم میں لے آئی۔
”اب یہاں آرام سے بیٹھ جاؤ“ وہ کسی روبوٹ کی طرح آرام دہ کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ نیلوفر گھر میں اکیلی تھی ۔کچن کی صفائی کے بعد اس نے جھاڑن سے باہر کی جھاڑ پونچھ کی جب سینے میں درد کی زبردست لہر اٹھی ۔بےحال ہو کر زمین پے آ رہی۔ اس میں اتنی سکت بھی نہ رہی تھی کہ اٹھ کر چارپائی پر لیٹ جاتی۔
” لو بیٹا ، جوس پی لو اچھا محسوس کروگے“ مس منزہ نے ٹھنڈے جوس کا سٹرا اس کے ہونٹوں کو لگایا “
”مجھے نہیں پینا ۔۔“اس نے ہاتھ سے ڈبہ پیچھے دھکیلا۔
” پی لو میرا پیارا بچہ جی گھبرانا بند۔۔۔“
”نہیں پینا مجھے۔۔۔“ وہ ایک جھٹکے سے کرسی سے نیچے اترا ۔مس منزہ اس کی حالت دیکھ کر سکتے میں آ گئی تھی ۔
”وقاربیٹا۔۔۔“
” مجھے گھر جانا ہے “وہ بیرونی دروازے کی جانب لپکا۔ منزہ نے بازو سے تھام کر واپس کھینچا۔ اس کا چہرہ دیکھ کر وہ ٹھٹھک کر رہ گئی تھی۔
قریبا آدھ گھنٹے کے بعدمسلسل چیخ و پکار سن کر چند ہمسایہ خواتین وہاں آ گئی تھیں۔ نیلوفر کو تڑپتا دیکھ کر انکی جان نکلنے کو آگئی تھی۔ دوڑ کر اس کے قریب پہنچیں۔ سہارا دے کر چارپائی پر لٹایا۔
” نیلوفر کیا ہو رہا ہے؟“ ایک عورت نے اسے چلّاتے دیکھ کر بے بسی سے پوچھا تھا۔ ایک خاتون پانی کا گلاس لائی ۔
”ارے کوئی فیروز صاحب کو اطلاع دو“ایک خاتون نے اس کا سر دباتے ہوئے کہا۔ کوئی اس کے پاؤں دبا رہی تھی تو کوئی ہاتھوں کو سہلا رہی تھی ۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔
” وقار۔۔!“ سکول میں اس کےپہلے دن سے لے کر اب تک، اس نے اس کی آنکھ نم ہوتے تک نہیں دیکھی تھی ۔کجاکہ یوں آنسوؤں کی جھڑی لگنا۔۔۔ وہ حیران سے زیادہ پریشان ہوئی تھی۔ اگر وہ ایسے رو رہا تھا تو یقینا چھوٹی بات نہیں تھی۔
نیلوفر چارپائی پر پڑی مسلسل تڑپ رہی تھی۔ ہمسایہ کی عورتیں بے بسی سے اس کی مدد کے لئے ادھر ادھر دوڑ رہی تھیں۔ کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا تھا۔ نیلوفر کا موبائل بھی کہیں نہیں مل رہا تھا ۔چیختے چلاتے بالآخر نیلوفرخاموش ہوگئی تھی۔
”وقارڈئیر کیا بات ہو گئی؟ ایسے کیوں رویا میرا بیٹا؟“ اس نے حیرت سے اس کے آنسوؤں سے تر چہرے کو صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
” مجھے گھر جانا ہے“ اس نے روتے ہوئے جواب دیا تھا۔
”کیوں کیا طبیعت زیادہ خراب ہے؟“ اس نے اس کے ماتھے کو چھوا۔ لمس نے کچھ عجیب محسوس کیا تو گھبرا کر اس کے دل پر ہاتھ رکھا ۔پورے جسم میں لرزہ طاری تھا۔
” میں تمھارے قربان ۔۔بیٹا کیا ہوا ہے کچھ تو بتاٶ میری جان“ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ وقار کو اس حالت میں اس نے کبھی بھی نہں دیکھا تھا۔
”مجھے گھر جانا ہے“ دھواں دھواں آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ اس نے کہا تھا۔ انداز ملتجی تھا ۔مس منزہ اس کی حالت دیکھ کر پر نسپل کے آفس میں چلی گئی تھی۔ موقع کا فائدہ اٹھا کر وقار بیرونی دروازے کی جانب لپکا تھا۔مگر اچانک۔۔۔۔۔۔ اس کے اندر سناٹا چھا گیا تھا۔ تلاطم تھم گیا ۔خاموشی چھا گئی ۔سناٹا۔۔۔ویران سناٹا۔۔۔وحشت ناک خاموشی۔۔۔گھٹا ٹوپ خاموشی ۔کسی طوفان کا پیش خیمہ سکوت۔ وہ ایکدم ہی حد سے زیادہ پرسکون ہو گیا تھا۔ جی گھبرانا بند ہو گیا تھا۔ دروازے کے پاس کرسی پر بیٹھے چپڑاسی نے اسے استفہامیہ نظروں سے دیکھا تھا۔وہ بس ٹکٹکی باندھے بیرونی مین گیٹ کو دیکھ رہا تھا۔
***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***
قسط نمبر 5 بہت جلد ان شا ٕ اللہ۔۔۔۔۔
0 تبصرے