” سوری ۔۔۔کیا کہا آپ نے“ فیروز صاحب نے کان پرویز کے ہونٹوں کے قریب کیے۔ 

”آپ سن چکے ہیں بھائی“ انھوں نے ان کے کان میں سرگوشی کی۔

”یعنی۔۔۔یعنی۔۔ تم لوگ کہتے ہو کہ میں اپنے بیٹے۔۔۔ اپنے اکلوتے جگر کے ٹکڑے کے سر پر عذاب مسلط کر دوں؟“ انہوں نے حتی الوسیٰ آنکھیں پھیلا کر سب کو دیکھا۔

”نہیں بھائی ۔۔ہم بس یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ وقار کے لیے نئی ماں لے آئیں“

”ایک ہی بات ہے محمد۔۔۔ سوتیلی ماں لے آؤں، یہی کہہ رہے ہو نا تم سب“

”سوتیلی نہیں بھائی، صرف ماں“

” اور کوئی بتائے گا کہ نیلوفر کے بعد یہ” صرف ماں“ یعنی ”خالص ماں“ کونسی فیکٹری میں مینوفیکچر ہوتی ہے“ ان کا طنز زہر میں بجھا ہوا تھا۔

” ہوتی ہے بھائی۔۔۔ دنیا میں کوئی بھی کام ناممکن نہیں۔ اگر ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے تو جنگل سے بھی مل جائے گی۔ آپ ہاں تو کیجئے“ وردہ نے ہنس کر کہا تھا۔

” ہاں۔۔۔۔؟ ہاں کس لیے ؟اپنی جان عذاب میں ڈالنے کے لیے؟ اپنے گل بدن نازنین کی جان جوکھم میں ڈال دوں۔۔۔؟ جانتے بھی ہو کیا گزرے گی اس پر؟ مر جائے گا وہ۔۔ اگر اس عورت نے صرف ایک نگاہ غلط بھی اس پر ڈال دی“

”نہیں بھاٸی۔۔۔“

”کیا نہیں۔۔۔؟ہاں؟تم لوگ مجھے اس بات پر کنونس کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہو کہ مجھے بیوی کی ضرورت ہے تو شادی کر لوں“ وہ گرجے۔ ان کے بہن بھائی سہم گئے۔ پرویز صاحب نے ہمت کرکے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

” آپ کو بیوی کی نہیں بھائی۔۔۔ وقار کو ماں۔۔۔“ 

”نہیں ہے وقار کو ماں کی ضرورت۔۔۔! خدا کے لئے بس کرو تم سب“ ان کی بلند آواز میں پورا گھر لرز اٹھا تھا۔

” کیا لگتا ہے تم سب کو۔۔ جو عورت آئے گی وہ وقار کو سوتیلا پن نہیں دکھائے گی؟ اور اسے چھوڑو۔۔ اگر اس نے مجھے کسی چال کے ذریعہ میرے بیٹے سے دور کرنے کی کوشش کی تو؟؟“ 

”بھائی پہلی بات۔۔۔ ہر عورت ایک سی نہیں ہوتی۔ عورت تو نام ہی محبت کا ہے۔ دوسرے۔۔۔ ہم کوئی اندھے ہیں جو کوئی بھی اٹھا کر وقار کے سر پر رکھ دیں گے۔“ عون نے کہنا شروع کیا۔ سب خاموشی سے اسے سن رہے تھے۔

”اور رہی بات آپ کی۔۔۔ تو جہاں تک ہم جانتے ہیں۔۔۔ ہمارا باپ کی جگہ والا بھائی اتنا کم فہم کب ہے کہ کسی بھی عورت کے جال یا چال میں پھنس جائے۔۔۔!“