”کوئی بات نہیں مما، چھوٹی سی بات کرنی ہے۔ پھر کرلیں گے چینج “عباس نے اسی بے تابی میں کہا تھا۔

فرح کو اپنا شک یقین میں بدلتا محسوس ہوا۔ یعنی اس کا اندازہ ٹھیک تھا ۔ضرور آج میٹنگ میں کسی خاص ٹاپک پر بات ہوئی تھی۔

جس کی رپورٹ دینے کے لئے دونوں اتنے بے چین تھے کہ چینج کرنے کا تکلف بھی بعد کے لئے اٹھا رکھا تھا ۔

حالانکہ یہ وہ بچے تھے جو اپنے باپ کی طرح بنا کہے اپنے اصولوں کے اس قدر پکے تھے کہ ہر کام اپنے وقت پر بجا لاتے تھے، روٹین کے خلاف کبھی نہیں گئے تھے ۔

کجا کہ آج یونیفارم تبدیل کئے اور شاور لئے بنا باپ سے ملنا ۔۔۔فرح کو ان کے انداز میں کسی نئے پنڈورہ باکس کے کھلنے کی بو آرہی تھی۔

جرارعباس اپنے باپ کی ہوبہو کاپی تھا۔جسامت ، رنگت باڈی لینگویج۔ اور جھیل جیسی قدرے نیلگوں آنکھیں۔

جبکہ تطہیرفاطمہ ماں اور ننھیال پرگئی تھی۔ سنہری مائل رنگت اور شہد رنگ بھوری آنکھیں۔

عباس باپ ہی کی طرح بلا کا ذہین بھی تھا۔  اورفرح اس کی جاء ٹیم کے بچوں کے ساتھ ہونے والی میٹنگز سے بھی آگاہ تھی۔ آج صبح دونوں بچوں کو اسکول کے لئے تیار ہوتے دیکھ،فرح نے اتنی سردی میں باہر نکلنے سے منع کیا تو اس کے صاحبزادے نے صاف گوئی سے بتایا تھا کہ آج انتہائی اہم ٹاپک پر میٹنگ ہے۔اور جب اس کی ماں نے میٹنگ گھر پر کنڈکٹ کرنے کو کہا تو برخوردار نے کمال حاضرجوابی سے جواب دیا تھاکہ ہم گھر سے نہ نکلیں اور باقی بچے یہاں تک آئیں۔۔کیا وہ کسی ماں کے لال  نہیں ہیں؟

اور ویسے بھی رات سب کو سکول پہنچنے کا کہہ دیا تھا ۔سو سب پہنچ گئے ہوں گے۔ اس پر ماں تو لاجواب ہوئی ہی تھی،خود عباس بھی پریشان ہوا تھا کہ ماں کے ساتھ گستاخی ہو گئی ہے۔

جس کا مداوا اس نے ماں کے پیر چوم کر اور سوری کر کے کر لیا تھا۔

اس وقت فرح کو اپنے شوہر کےاپنی ماں کے لیے محبت و احترام کے انداز یاد آئے تھے۔ اسے اپنے بیٹے پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا

اور ساتھ ہی جانے کی اجازت دے دی تھی۔البتہ فاطمہ ماں کا ہاتھ بٹانے کے لئے دس بجے تک رک گئی تھی۔اور خود وہ صاحبزادہ سات بجے سے وہاں جاکر بیٹھا تھا۔  

”دیکھ لو۔۔۔ جیسی تمہاری مرضی “کریدنے کی کوشش ناکام ہوئی تو ماں نے بے دلی سے اجازت دی۔ اجازت ملتے ہی دونوں باباجان کے کمرے کی جانب لپکے تھے۔

” کم ان ...“ دستک کی آواز پر اس نے The London Timesکو ہٹاتے ہوئے اجازت دی۔

” اسلام علیکم بابا جان “دونوں نے یکے بعد دیگرے سلام کیا۔

” وعلیکم السلام میرے بچو“ اس نے اخبار پکڑے ہوئے آرام دہ کرسی کو مخالف سمت گھما کر مدھم سی مسکراہٹ سے اپنے لاڈلوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا  ۔

تیس کے لگ بھگ وجہیہ سراپے اور قدرے نیلگوں آنکھوں اور مضبوط قد کا کاٹھ کا مالک وہ انکا باپ ”سید وقار فیروز نور علی رضوی “تھا۔

” تو کیسا رہا آپ لوگوں کا ونٹر ایڈونچر؟“ اس نے مسکرا کر پوچھاتھا۔اس عمر میں بھی اس کے چہرے کے نقوش بیٹے ہی کی طرح معصوم اور پرکشش تھے۔البتہ عمر کی مناسبت سے چہرے پر پختگی بھی دیکھی جا سکتی تھی۔

”اچھا تھا“عباس نے مختصر جواب دیا ۔وقار کو لگا وہ کچھ کہنے کو پر تول رہا  تھا۔

”اور آپ میری راجکماری..؟“ بیٹے سے صرف نظر کرکے وہ بیٹی کی جانب متوجہ ہوا ۔