”جی ٹھیک...“ یہاں سے بھی مختصر جواب۔۔ وہ زیر لب مسکرا یا۔ عباس کا باپ تھا ۔اس کی ہر حرکت کے پیچھے کے مقصد کو سمجھتا تھا ۔

اور آج تو بہن بھی پورے قد سے بھائی کے ہم قدم تھی۔  اتنانپاتلاجواب۔۔ حالآنکہ یہ اس کی وہ چہیتی صاحبزادی تھی جو بھلے کہیں سے بھی ہو کر آئے، پورے دن کی رپورٹ سنائے بغیر اسے چین نہیں آتا تھا۔

اور سب سے خلاف معمول چیز ان کا ہنوذ وردی پوش ہونا تھا ۔صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ دونوں کتنی بے چینی سے سکول سے سیدھے اس کے کمرے میں آئے تھے۔  وہ سمجھ گیا تھا کہ دونوں کچھ بہت ہی خاص لائے تھے۔ 

"کچھ کہنا ہے؟“

” جی “عباس نے مودب کھڑے ہوئے جواب دیا ۔

”کہو میں سن رہا ہوں “دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ اس نے انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اور اخبار تہ کر کے سامنے کانچ کی میز پر رکھا۔

” ہمیں آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے بابا جان“ تطہیر فاطمہ نے دادی اماں کی سی سنجیدگی چہرے پر سجاتے ہوئے معصومیت سے اپنے آنے کا مقصد بتایا۔

”کہو بابا کی جان ۔۔۔سن رہا ہوں“ کہا بیٹی سے مگر کان بیٹے کی جانب تھے۔

”باباجان ہمیں کیرا دیکھنی ہے۔ عباس نے حسب معمول بنا تمہید کے سیدھے مدعے  پر آتے ہوئے کہا۔

” کیا کیرا۔۔۔۔! “اس کی بات سن کر جہاں وقار کی  نیلگوں آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں، وہیں فرح کے قدموں کو بھی سٹاپر لگ گیا تھا. جو اندر آنے کو دروازہ کھولنے ہی والی تھی ۔۔۔خاموش ہو کر دروازے سے چپک گئی۔

”جی بابا جان، ہم سبھی بچے کیرا دیکھنا چاہتے ہیں“ عباس نے اپنی مخصوص شائستہ انداز میں کہا ۔ 

” جی بابا جان آخر ہمارا بھی حق ہے کہ ہمیں پتہ چلے کہ آخر کیا ہے کیرا“ننھی فاطمہ نے بھائی کے گھنٹہ بھرپہلے بولے گئے الفاظ کو سنجیدگی سے دوہرایا۔ وقار  پھر زیر لب مسکرا یا۔وہ ان کی آج کی میٹنگ کے ٹاپک کو سمجھ چکا تھا۔

 عباس نے نگاہوں سے بہن کو خاموش رہنے کی تلقین کی۔ فاطمہ نے فرمانبرداری سے اثبات میں سر ہلایا۔

”ٹھیک ہے مگر.....“

دونوں نے پہلے ایک دوجے کو دیکھا پھر نا سمجھی سے باپ کی جانب دیکھا۔ جس کی مسکراہٹ انہیں خطرے کی گھنٹی لگ رہی تھی۔

” اس سے پہلے میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا آپ سبھی نے Winter vacation task مکمل کر لیا ہے؟“ اس نے باری باری دونوں بچوں کی جانب دیکھا۔ ہونٹوں پر ہلکی جتا دینے والی مسکراہٹ تھی۔

” جی بابا جان میرا بالکل تھوڑا۔۔۔ اتنا سا کام رہ گیا ہے “فاطمہ نے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کو تقریبا ملاتے ہوئے لفظ”اتنا“ کو لمبا کر کے وضاحت کی۔

”اور آپ کا؟“ اس نے صاحبزادے کی جانب دیکھا۔

”بابا جان بس ایک سبجیکٹ رہ گیا ہے“ اسے شرمندگی ہوئی۔ 

“Aww....تب تو مشکل ہو جائے گا”

اس نے اطمینان سے اپنا سر کرسی کی ٹیک کے ساتھ لگایا۔دونوں نے بے بسی سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔

  وقار نگاہوں سے ان  کے اندر اٹھتے تلاطم کو دیکھ کر دل میں مسکرا رہا تھا۔یہ الگ بات کہ مسکراہٹ عیاں نہ ہونے دی تھی۔

” ایسی صورت میں میرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ اپنا ونٹر ویکیشن ٹاسک پورا کریں“

”یہ چیز۔۔۔۔!“ اچانک اندر آتے بلند آواز میں نعرہ لگاتے ہوئے فرح نے دروازے بے چارے کی بھی نانی یاددلا دی تھی۔دروازے کی زوردار آواز پر جہاں وقار نے چونک کر اس جانب دیکھا تھا وہیں عباس نے بھی بھرپور   ڈرامائی انداز اپناتے  ہوئے  اپنے دل پر ہاتھ رکھا اور تیزی سے ٹانگیں کرسی کے اوپر کر کے اچھلتے ہوئے حتیٰ الوسیٰ  آنکھوں کو پھیلایا ۔

”آ۔۔۔آپ کہاں سے ٹپکیں ۔۔۔؟“  اس نے بدستور دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے مصنوعی اکھڑی سانسوں کو ہموار کرتے ہوئے پوچھا تھا۔ اور وقار کی صاحبزادی بھی کیوں کر پیچھے رہ جاتی۔۔۔۔

اس نے بھائی کی بات سے محظوظ ہوتے ہوئے بچپنے سے بھرپور معصوم قلقاری ماری تھی اور ساتھ ہی شہادت کی انگلی کو اوپر  سے نیچے لاتے ہوئے بتایا تھا کہ مما کیسے ٹپکیں

”زوووو۔۔۔۔ڈبک۔۔۔“ کمرے میں فاطمہ کی معصوم حرکت پر قہقہے شروع ہوئے۔

” بیٹا جی یہ آپ کی اماں جان ہیں۔۔۔باہر کھڑی سن رہی تھیں ہماری مزے مزے کی باتیں ،سن کر رال ٹپکی تو خود بھی ٹپک پڑیں حصہ لینے کو۔۔۔وقار نے  ہنستے ہنستے بچوں سے کہا  تھا۔