” کیا  ۔۔۔کیرا؟“  گروپ میں چہ مگوئیاں شروع ہوئیں۔
حقیقت یہ تھی کہ کسی کو بھی اندازہ نہ تھا کہ آج کے دن ہونے والی اہم ترین میٹنگ کا ٹاپک یہ ہوگا۔  خود تطہیر فاطمہ بھی میٹنگ کے موضوع کے بارے میں نہیں جانتی تھی۔
وہ میٹنگ جس کی اطلاع بھائی کی جانب سے تطہیر فاطمہ نے رات کے نو بجے گھر گھر جا کر دی تھی ۔وہی اہم ترین میٹنگ جس میں شمولیت نہ کرنے والے ممبر کو(بشرطیکہ بہت زیادہ مجبوری نا ہو)بھاری جرمانے( کھانا کھلانے یا سپیشل ٹاسک) کی صورت میں سزا سنائی گئی تھی۔
اور یہ وہی اہم ترین میٹنگ تھی جو بہت زیادہ پرجوش ہونے کے باوجودJ.A.W ٹیم کے ممبرزنے لیٹ کر دی تھی ۔
(مگر حقیقت یہ تھی کہ بچوں سے زیادہ عباس کو بے چینی تھی )یہ ٹاپک گذشتہ رات بستر پر لیٹے ہوئے اسے سوجھا تھا اور اس نے فورا بہن کو دوڑایا تھا یہ پیغام دے کر کہ صبح دس بجے سب بچے کے این کیو کے کیفے ٹیریا میں پہنچ جائیں ۔
اور خود و ہ سات بجے سے آ کر بیٹھا تھا ۔یہ ٹاپک ہی ایسا تھا جو پراسراریت کا  خول اوڑھے تقریبا ہر گھر میں مقیم تھا اور چھوٹے بڑوں کو متجسس کیے ہوئے تھا کہ آخر یہ ہے کیا بلا۔
اور جنہیں معلوم تھا انہوں نے بہت قریب سے اسے جانا تھا۔ اورپھروہ دوسروں کے سامنے کچھ اس طرح سے رطب اللسان ہوا تھا کہ سننے والا دیکھے بغیر ہی چٹخارے بھرنے لگتا، اور اس کی چاہ میں بے چین رہتا ۔
سوآج جرار عباس نے سب کی مشکل کو حل کرنے کا بیڑا اٹھا لیا تھا۔
عباس نے کھکارا تو مجمع ایک دم خاموش ہوا۔
” میں جانتاہوں کہ یہ ٹاپک آپ سب نے سن رکھا نہ ہوا تو کم ازکم تھوڑی بہت واقفیت تو لازمی ہوگی“ اس نے خالصتاً پیشہ ورانہ انداز اپناتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔ٹیم ممبرز بھی پروفیشنل انداز میں اس کی گفتگو سن رہے تھے۔ یہ ممبرز کچھ اس کے کزنز، کچھ قریبی دوست اور کچھ والد کے عزیز و اقارب کے بچے تھے۔
جرارعباس کی شخصیت ایسی پرکشش تھی کہ باپ کے بعد اگلی نسل نے اس کے بیٹے کو کمانڈنگ پرسنالٹی کے طور پر تسلیم کرلیا تھا ۔اور ہر کوئی اس کے والد کے بعد اس کے لیے ”مشتاق“ تھا ۔
مگر عباس نے بھی اپنے والد کی طرح اپنے حلقہ احباب کو محدود ہی رکھا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ جاءٹیم کے ممبرز فقط اس کے قریبی عزیز و اقارب کےبچے تھے ۔
”میرے خیال میں پھو پھوجان، آپ تو اس کے بارے میں اے ٹو زی جانتی ہو ں گی کیوں؟“اس کی بات سن کر اس کی پھوپھو فخر سے مسکرائی تھی اور ساتھ ہی اثبات میں سر ہلادیا۔