”سچ ۔۔پھر تو آپ سب جانتی ہوں گی ہمیں بھی بتائیے نا اس کے بارے۔۔۔“ ایک بچے نے متجسس و مرعوب لہجے سے سرشار ہوکر پوچھنا چاہا تھامگر عباس کی تنبیہی نگاہوں پر اس نے اچھے بچوں کی طرح انگلی ہونٹوں پر رکھ لی تھی۔

تو میں کہہ رہا تھا کہ ہم سب” کیرا“ کے بارے میں کچھ حد تک جا نتے ہیں مگر مکمل نہیں جانتے۔۔“

” میں جانتا ہوں۔۔۔ یہ وقار بھائی کی آٹوبائیوگرافی ہے“ فاطمہ کے بعد آنے والے لڑکے نے عباس کی بات کو قطع کرتے ہوئےاپنی دانست میں مجمع میں دھماکہ کیا تھا ۔

اور عباس نے اسے بھی گھورا تھامگر وہ



تو اس سے بڑا تھا نا ۔سو ناک سے مکھی اڑائی ۔

”لیکن فرینڈز میں نے بھی یہ مکمل نہیں دیکھی۔مگر اویس بھائی جان کو مکمل آگاہی ہے “

”بیچ میں مت بولیے تایا جان“ عباس نے تحمل کا گھونٹ بھرا. ”کیایارا ۔۔۔کم سے کم سکول میں تو مجھے تایا جان مت کہا کر۔آکورڈ لگتا ہے“ وہ برا مان گیا تھا۔

تمام بچے عباس کے رعب سے خاموشی سے میٹنگ میں پڑھنے والے رخنے کو سن رہے تھے۔

”مانا میں تم سے چند ماہ بڑا ہوں پر اتنا بھی نہیں سو تم مجھے۔۔۔“

” آہم آہم ۔۔“عباس نے کھنکار کر اس کے کلام کو قطع کیا اور نگاہوں میں بتایا کہ آپ رولز توڑ رہے ہیں۔

” میں آپ کی عزت کرتا ہوں  کہ ایک تو آپ میرے والد محترم کے ہم نام ہیں۔ دوسرے بابا جان کے عزیز از جان استاد محترم کے فرزند۔۔  اور تیسرے۔۔۔ بابا جان آپ کو چھوٹا نہیں، بڑا بھائی مانتے ہیں۔ اس لئے کہہ جاتا ہوں آپ کو تایا جان ناؤ کم ٹو داٹاپک پلیز۔۔“

اس نے باوقار انداز میں وضاحت کی اور پھر اسے خاموش رہنے کا حکم بھی دے ڈالا ۔

اس کی بڑی بڑی نیلگوں آنکھوں میں تنبیہہ دیکھ کر اس نے لبوں کو زیب لگائی( مگر تھوڑی سی کھلی بھی چھوڑ دی تھی)

” سو میں کہہ رہا تھا کہ تقریبا ہر گھر میں کیرا کا ذکر کسی نہ کسی طور پر چلتا ہی رہتا ہے کیا انگلینڈ اور کیا پاکستان ،بلکہ اب تو یہ ورلڈ وائڈ پھیل چکا ہے اور خوب مقبول ہو چکا ہے ۔Evenمیرے گھر میں میرے والدین دادا دادی وغیرہ ہمیں کیرا کے قصے سناتے ہیں اور پھر اس کے جیسا بننے کی تلقین کرتے ہیں۔ ایم آئی رائٹ؟ “اس نے تائید چاہی۔ تو بچوں نے بیک وقت اثبات میں سر ہلاتے ہوئے” یس“ کہا۔