”جی ہاں۔۔۔میرے پیرینٹس بھی ایسا ہی کہتے ہیں۔”کیرا کو دیکھو، کیراکو فالو کرو،وہ کیا کرتا ہے۔وہ کیسے رہتا ہے۔وہ کتنا اچھا ہے۔۔۔شاید سب کیرا سےامپریسڈ ہیں“ ایک بچی نے اپنی مدہم سی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا۔

”ہوں۔۔ تو کیا ہمارا حق نہیں کہ جانیں کہ کیا ہے کیرا“ عباس کی سنجیدہ آواز پر سب نے بیک زبان” جی ہاں“ کہہ کر تائید کی ۔

”تو اس کا حل کیا ہے ؟“ایک بچے نے سنجیدہ ہو کر پوچھا۔

” کیا میں مدد کر سکتی ہوں ؟“اسکی پھوپھو نے پوچھا تو سب اس کی جانب متوجہ ہوئے۔

” کیسے؟“ عباس نے پین انگلیوں میں گھماتے ہوئے پوچھا۔

” میں تمہاری جانب سے بھائی سے اجازت لے سکتی ہوں“ اس نے پیشکش کی۔

”نہیں پھوپھو جان ۔۔اس بارے میں بابا جان سے اجازت میں خود لینا چاہتا ہوں“ اس نے پین میز پر رکھا اور پیشکش کو مسترد کردیا ۔

”اوکے ایز یو وش “اس کی پھوپھو نے خوش دلی سے کہا ۔

”تو ٹھیک ہے۔۔ میں اس بارے میں آج بابا جان سے بات کروں گا اور پھر وہ جو بھی کہیں گے میں کل آپ سب کو بتا دوں گا But please every one should be   at time by tomorrow...meeting is adjourned“ عباس اٹھ کھڑا ہوا باقی بچے بھی اس کا شکریہ ادا کر کے باہر کو نکلے ۔

جرارعباس اور تطہیر فاطمہ بھی اپنی پھوپھوعبیرہ فاطمہ کے ساتھ گھر کو روانہ ہوئے۔

یہ دونوں اس شخص کے فرزند تھے جس کی شہرت کا جھنڈا پورے ایشیا اور یورپ میں پھیلا ہوا تھا۔برٹش گورنر نے اسے”The Blue Blood Prince“ کا خطاب دیا تھا ۔

”السلام علیکم مما جان “دونوں بچوں نے یکے بعد دیگرے سلام کیا۔

” وعلیکم السلام میرے دل کی راحت آگئے؟“ماں نے سبزی کی ٹوکری میں چھری رکھ کر ان کی جانب لپکتے ہوئے پر مسرت لہجے میں کہا ۔

”کیسا رہا دن ؟“اس نے فاطمہ کے کندھے سے بیگ  اتار کر معنی خیز مسکراہٹ سے پوچھا (وہ ان کی میٹنگ کے بارے میں جانتی تھی)۔

ان کی پھوپھو سیدھی اپنے کمرے کی جانب لپکی تھی ۔

”جی اچھا “عباس نے مختصر جواب دیا ۔

فر ح (جرارعباس اور تطہیر فاطمہ کی ماں) کا ماتھا ٹھنکا ۔

”بابا جان کہاں ہیں؟“

” اپنے کمرے میں ہیں“ فرح نے بیٹی کے لہجے کے انداز میں بتایا ۔

”کیا ہم ان سے مل سکتے ہیں؟“ عباس نے باپ کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھ کر بے تابی سے پوچھا تھا۔

”اس حلیے میں...؟اونہوں۔۔ تمہارے بابا کو اچھا نہیں لگے گا“ فرح نے کریدنے کی کوشش کی۔