کھلونےکی طرح سب اس سے کھیل رہے ہیں۔ اور جب باوجود بہت ضبط کے شہزادہ بھوک سے بلکتا ہے تب جا کر سب کو یاد آتا ہے کہ شہزادے کی ماں اس کی راہ تکتی ہوگی۔ یوں گھر بھر میں اسے سب نے ہتھیلی کا چھالا بنا رکھا تھا ۔جب وہ ایک سال کا ہوا تو گھر میں رونق مزید بڑھ گئی۔ چلنے تو وہ تین ماہ قبل ہی لگ گیا تھا اور بولنا بھی اس نے بہت جلد سیکھاتھا۔ مکمل تو نہیں۔۔۔ البتہ چھوٹے چھوٹے الفاظ جب پیاری سی مسکان کے ساتھ ادا کرتا تو سب صدقے واری ہو جاتے۔

                     ***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***                   

  ”پرویز مجھے تم سے بات کرنی ہے“ بہت دنوں کے بعد موقع ملا تو فیروز صاحب نے اسے اپنے کمرے میں بلایا تھا۔ نیلوفر اپنی بہن کے کمرے میں اس سے باتیں کر رہی تھی اور نرجس(نیلوفر کی بہن) وقار کو تھامے اسے کوئی نیا لفظ سِکھا رہی تھی اور اسے ہنستے دیکھ، وہ دونوں بھی ہنس رہی تھیں۔

” جی بھائی کہیے۔ میں حاضر ہوں“ پرویز صاحب نے سینے پر ہاتھ رکھ کر تھوڑا جھک کر کہا۔ فیروز صاحب مسکرائے ۔

”آج تمہارا بھائی تم سے کچھ مانگنے آیا ہے پرویز۔ کیا دو گے؟“

” کیسی بات کر رہے ہیں بھائی جان۔۔ آپ کے لئے تو سب حاضر ہے آپ کہہ کر تو دیکھیے“انھوں نے بڑے بھائی کے ہاتھ تھام کر کہا تھا ۔

” پرویز تم جانتے ہو کہ ہم دونوں کی جوڑی کی لوگ مثالیں دیتے ہیں ۔۔“

”جی بھائی ایسا ہی ہے“ فیروز صاحب کی جانب سے وقفہ ہونے پر انہوں نے تائید کرتے ہوئے کہا۔

” تو میں یہ چاہتا ہوں پرویز کہ اگر۔۔۔“ انہوں نے ایک بار پھر توقف کیا ۔پرویز صاحب نے انھیں بغور دیکھا تھا۔ پہلی بار انہیں بڑے بھائی کی نگاہیں جھکی ہوئی محسوس ہوئی تھیں۔ انہیں افسوس ہوا ۔

”کم آن بھائی ۔میں آپ کا بھائی ہوں آپ کا خون۔ آپ کا ماں جایا۔۔۔ جس نے کبھی آپ کی بات نہیں ٹالی ۔آپ مجھ سے شرما رہے ہیں۔۔۔؟ پلیز کہہ دیجئے۔ اگر کیا؟“

” یہی کہ اگر تمہارا آنے والا مہمان لڑکا ہوا۔۔ تو ہم سب تمہاری خوشیوں میں چہار جانب سے شریک ہیں۔ اور اگر۔۔ بیٹی ہوئی تو وہ ۔۔۔میری ہوگی“

” جی۔۔۔؟“ پرویز صاحب نے اپنی سیاہ آنکھیں پھیلائیں۔ وہ شاید ان کی بات کو سمجھ نہیں پائے تھے۔

” پرویز ہم دونوں میں جو خوبصورت تعلق ہے میں اس تعلق کو مزید گہرا اور مستقل کرنا چاہتا ہوں“ اور اس بار پرویز صاحب سب سمجھ گئے تھے۔ مسکرا کر نظریں جھکائیں۔بڑے بھائی نے بانہیں وا کیں۔ اور یہ لپک کر ان میں سما گئے۔