کچھ دن بعد پرویز صاحب اور نرجس کے باغیچے میں بھی اک کلی  نے سر اٹھایا۔ اک نازک سی پری ۔۔سنہری رنگت، کشادہ بڑی بڑی بھوری آنکھیں اور معصوم مسکراہٹ۔ 

فیروز صاحب اور نیلوفر بھی اپنے گل بدن کو لیے اس نیم وا کلی کو دیکھنے آئے تھے۔فیروز صاحب اور پرویز صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔ بچی پنگوڑے میں تھی ۔دو سالہ وقار ماں کی گود سے ہمک ہمک کر اسے دیکھ رہا تھا ۔اور چھوٹے سے ہاتھ سے اس کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔

 ماں دیکھ کر مسکرائی اور اسے زمین پر پنگھوڑے کے پاس چھوڑ دیا۔ وقار اس کے قریب آیا۔ پنگھوڑے پر لگے کھلونے کو ہلایا ۔بچی دیکھ کر مسکرائی ۔وہ اس کے پنگھوڑے کے گرد چکر لگا رہا تھا ۔اور کبھی کبھی لٹکتے خوبصورت کھلونے کو ہاتھ سے ضرب مارتا تو وہ چھنچھناہٹ کی آواز دیتا۔ گھر آئے مہمانوں میں سے کسی کا ان پر دھیان نہ تھا سوائے نیلوفر کے۔۔ وہ بہت توجہ سے بیٹے کا کھیل میں محو ہونا دیکھ رہی تھی۔

نہ جانے وہ کس کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔پنگھوڑھے کے ساتھ( چکر کاٹ کر)۔۔ اس پر بنے کھلونے کے ساتھ، یا ننھی بچی کے ساتھ۔چلتے چلتے وہ اس کے سامنے آ کر رک گیاتھا۔نیلوفر اسے دیکھ رہی تھی۔لوگوں کی گپ شپ میں اس وقت اسے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔اگر کسی شخص میں دلچسپی تھی تو وہ تھا اس کا بیٹا ۔

وہ اس کے سامنے آ کر رک گیا تھا ۔ہاتھ سے کھلونے پر ضرب لگائی ۔بچی کھل کر مسکرائی۔ وقار کے منہ سے نکلا”فرح۔۔۔“ 

”اوہ ماں تمہارے قربان۔۔۔“ نیلوفر کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ سب کی توجہ اس کی جانب ہوئی جس نے لپک کر وقار کو اٹھا لیا تھا۔نرجس گھبراکر اٹھی۔ نیلوفر اپنے بیٹے کو مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔

” کیا ہوا نیلو؟ سب ٹھیک ہے؟“  فیروز صاحب بچی کو دیکھنے لگے کہ مبادہ وقار نے بچی کو مارا ہو۔

” بولئے نہ آپی جان۔۔ کیا ہوا؟“ نرجس نے بے تابی سے پوچھا تھا۔ 

”وہ ۔۔۔“نیلوفر نے فیروز صاحب کی طرف دیکھا۔ سب اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دیکھ کر حیران تھے۔ اور راز جاننے کو بے تاب۔۔۔

” وہ میرے چاند نے اپنی چاندنی کا۔۔۔ نام رکھا ہے “اس نے آہستہ سے بتایا۔

” سچ ۔۔۔وقار نے۔۔؟ کیا نام۔۔! ارے بتائیے نا بھابھی جان!“ پرویز صاحب کی بے چینی دیدنی تھی۔ ان کی ماں خدیجہ دیکھ کر مسکرائیں۔ نور علی نے بھی تبسم کیا ۔

”بتاؤ مما کی جان۔۔۔ کیا نام رکھا ہے آپ نے اپنی کزن کا بولو بولو“ نیلوفر نے اسے پچکارتے ہوئے پوچھا تھا۔مگر وہ ایک بار پھر نیچے اترنے کو مچل گیا تھا اور ماں کی گود سے نیچے کو لٹک گیا تھا ۔

ماں نے مسکرا کر دوبارہ سیدھا کیا ۔وہ پھر بے جان سا ہو کر جھول گیا۔سب اس کی اس شرارت پر ہنس ہنس کر بے حال ہوگئےتھے۔ نیلوفر اس کے ساتھ کھیلنے لگی۔ 

یہ اس کا سر اٹھا کر سینے سے لگاتی اور وہ جھٹ اپنا سر زمین کی طرف پھینک لیتا۔نیلوفر بے اختیار ہو کر اسے بوسے دینے لگی تھی۔ اور ساتھ ہنستی جاتی تھی۔ پھر اس نے نظر بد کی دعا پڑھ کر پہلے اس پر پھونک ماری پھر نومولود پر۔

”بتاؤ نا مما کی جان آپ نے ابھی کیا کہا تھا۔۔۔ میرا بچہ بولو نا “اس نے دوبارہ اسے سیدھا کیا۔ چھوٹی سی عمر میں بھی سمجھنے بوجھنےکی صلاحیت اس میں خوب تھی ۔لھذہ ضد چھوڑ کر سیدھاہو گیا ۔مگر بولا کچھ نہیں تھا۔

طفولیت کی عمر میں بھی نہ جانے اس میں نخرہ تھا کہ کیا۔۔۔ سیکھے ہوئے الفاظ بھی موڈ میں ہی ادا کرتا تھا ۔اور زیادہ تر خاموش رہتا تھا۔ اور خاموشی میں ہی پورے گھر میں بھاگتا دوڑتا رہتا تھا۔

”  بولو نا میرے چاند۔۔ کیا کہا تھا ابھی“ نیلوفر نے اس کے منہ سے اس کی انگلی نکالی تو وہ ماں کو دیکھ کر مسکرایا ۔سامنے کے دو چوڑے دانت باقی دانتوں کی نسبت مسکرانے پر زیادہ نمایاں ہوتے تھے۔ اس کی مسکراہٹ پر وہ سو جان سے نثار ہوئی تھی۔