ف۔۔۔رح۔۔۔“ اس نے کہا اور ایک بار پھر ماں کی گود میں جھول گیا۔ کمرے میں تالیاں بج گئیں۔ وہ بھی آواز سن کر سیدھا ہوگیا اور ننھے ہاتھوں سے تالی بجانے لگا۔

”فرح۔۔ کتنا پیارا نام ہے۔ہے نا؟“

”ہاں بالکل “پرویز صاحب نے زوجہ کی تائید کی۔

”ٹھیک ہے۔فرح ہی ہو گا میری بچی کا نام۔آفٹر آل۔۔۔وقار میرا بیٹا ہے اور ”فرح“میری بیٹی۔۔۔ مجھے نام پسند ہے“ نرجس نے رضامندی کا اظہار کیا۔

ننھے وقار نے اس کی جانب ہنس کر دیکھا۔ ”سیدہ فرح پرویز نورعلی رضوی“ کھل کر مسکرائی

”اوہ واؤ بابا جان۔۔ ہاؤ سویٹ آف یو ۔۔“

عباس تو سکرین میں یہ منظر دیکھ کر نہال ہی ہو گیا تھا۔ فرح مسکرائی۔ وقار نے بیٹے کو تنبیہی نگاہوں سے دیکھا ۔اس نے منہ پر انگلی رکھی۔ رکا ہوا منظر سکرین میں بحال ہوا

     نوٹ

(Emperor O' Wonders کا اگلی اقساط میں تعارف کرایا جائے گا)                            ***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***

”السلام علیکم مما“ اسکول سے گھر آتے ہی اس نے سلام کیا۔

” وعلیکم السلام میرا چاند“ اپنے لاڈلے کی آواز سن کر ماں سارے کام چھوڑ کر اس کی جانب لپکی تھی ۔بیگ اتارا اور پسینہ پسینہ ہوئے چہرے کی ڈھیروں بلائیں لے لی تھیں۔

” آپ کے بابا کہاں رہ گئے؟“ بیرونی دروازے کو دیکھتے ہوئے اس نے بیٹے سے پوچھا ۔

”وہ پھر چلے گئے “لہجے میں ناراضی سی تھی۔ نیلوفر نے چونک کر بیٹے کو دیکھا۔ اس کا چہرہ تب بھی غصے سے لال بھبوکا ہو رہا تھا جب وہ آیا تھا۔اس وقت اس نے نظر انداز کیا تھا مگر اب وہ اسے نظر انداز نہ کرپائی تھی ۔

”کیا ہوا میرا چاند۔ کیا کچھ ہوا ہے اسکول میں؟ دن کیسا گزرا؟“ وہ اس کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔

”بالکل اچھا نہیں گزرا مما۔ بہت برا تھا “

”کیوں کیا ہوا؟“ اس نے فکر مندی سے پوچھا تھا۔ وہ ایسی ہی تھی۔ بیٹے کی چھینک سن کر پریشان ہونے والی، اور پھر آنسو بہانے والی ۔

مما کیا بتاؤں۔۔۔ ایک ہی تو دوست ہے اسکول میں ۔وہ بھی چھٹی پر تھی۔کھیلنے کے لیے کوئی تھا ہی نہیں“ شدید نروٹھے پن سے کہا گیا ۔

”کون سی دوست ؟“وہ ذہن پہ زور ڈالنے لگی تھی کہ آیا وقار کی کون سی دوست ہے وہ بھی لڑکی۔۔۔

”ارے میں فرح  کی بات کر رہا ہوں کوئی بھی نہیں تھا مجھ سے کھیلنے ۔۔۔“قبل اس کے کہ وہ بات کو مکمل کر پاتا ماں کا قہقہہ سن کر حیران ہوا۔

” میرا نہیں خیال کہ اس میں کچھ ہنسنے والا تھا “ماں کو لگاتار ہنستے دیکھ کر وہ کچھ الجھا۔ ”نہیں۔۔۔نہیں تھا“۔نیلوفر  نے تسلی دینے کے انداز میں کہا۔ البتہ مسکراہٹ ابھی بھی اس کے ہونٹوں سے جدا نہیں ہو پا رہی تھی۔ یوں لگتا تھا پھر سے زور سے ہنس دے گی۔ اس کےاس پر اسرار سے انداز پر وہ مزید الجھن کا شکار ہواتھا۔ مگر ماں کا چہرہ دیکھ کر وہ جان گیا تھا کہ وہ اسے کچھ نہیں بتائے گی ۔سوچپ چاپ اپنے کپڑے لیے واش روم چلا گیا۔ ماں نے فون کان کو لگایا۔