یہ گرمیوں کا تقریبا اختتام تھا۔ اور لاہور کی سڑکیں بوجہ موسم خزاں کے سنہری ہو گئی تھیں۔ ایسے میں جب ہوا کا کوئی آوارہ جھونکا بے جان اور اداس پتوں سے اٹھکیلیاں کرنے کی کوشش کرتا تو وہ اداس اور بے جان برگ شجر سے علیحدگی اختیار کرکے گول گول گھومتے ہوئے زمین پر آ پڑتے اور پھرابدی نیند سو جاتے۔ یہ منظر دیکھنے میں بہت ہی بھلا لگتا۔ سینکڑوں سنہری پتے لہراتے بل کھاتےنیچے کی طرف آ تے تو جادو کا سا کا گماں ہوتا تھا۔

” میرا چاندلنچ تیار ہے“وقار نماز سے فارغ ہوا تو ماں نے میز پر  کھانا چنتے ہوئے آواز دی۔ وہ خاموشی سے آکر میز سے کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گیا تھا۔ 

”کیا۔۔۔؟“نگاہوں کی تپش محسوس ہونے پر اس نے چہرہ اٹھا کر دیکھا۔

والدہ صاحبہ کو اپنے تئیں مسکراکر دیکھتے پایا۔ وہ شباہت میں بالکل باپ کی کاپی تھا۔

سرخ و سفید رنگت، سیاہ ریشمی بال اور اس پر ماتھے پر ایک خوبصورت سا پف جو کبھی ہوا سے جھومتا تو بہت دیدہ زیب لگتا ۔سرخی مائل لب اور چمکیلی فیروزی نیلی آنکھیں۔

مگر عادات میں وہ دادا نور علی جیسا تھا۔سنجیدہ ،خاموش طبع اور باتیں معصومیت میں بھی 90 سالہ شخص جیسی ۔عادات میں بچپن سے ہی نخرا موجود تھا ۔

اچھی عادات کی بات کی جائے تو ان میں بے ضرر شرارت کرنا۔ کھیل میں ہم عمروں کو مارنے نوچنے کی عادت نہیں تھی۔ بلا وجہ روتا دھوتا نہیں تھا۔ ماں باپ کی بات مان لیتا تھا ۔

اور اگر بات کریں اس کی بری عادات کے متعلق ۔۔تو خامیوں سے مبرا کون سا شخص ہے۔مگر اس کی جس عادت پر فیروز صاحب اور نیلوفر پریشان ہوتے تھے،وہ اس کا کبھی کبھی بے حد عجیب رویہ دکھانا تھا ۔

عموما وہ شرارت نہیں کرتا تھا اور نہ ہی ضد کرتا تھا۔ مگر کبھی کبھار وہ ایسی بے جا ضد کرتا کہ دونوں حیران رہ جاتے کہ اس کی اچھی بھلی عقل کو کیا ہو گیا ہے۔ 

مثلا اگر آپ کا بیٹا (جو سمجھدار بھی ہو) آپ سے ٹاپس مانگتا ہے یا لہنگا مانگے گا یا چوڑیوں کی فرمائش کرے گا تو آپ بھی یقینا حیران ہو جائیں گے کہ یہ کیسی عجیب مانگ ہے۔ وقار کچھ پلوں کے لئے ایسی ضد  کر بیٹھا تھا ۔اور پھر کچھ ہی پلوں کے بعد بالکل ایسے نارمل ہوجاتا تھا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

 وہ دونوں اس کی اس عجیب حرکت کو دیکھ کر سخت حیران رہ جاتے تھے۔ گو کہ اب تک ایسا بہت کم ہوا تھا۔

 ”کیا۔۔۔؟“ ماں کو اس قدر دلجمعی سے خود کو دیکھتے پاکر اس نے پوچھا تو وہ چونک کر سوچوں کے حصار سے باہر آئی۔

”تو۔۔۔ آپ آج سارا دن بور ہوئے۔۔؟“

جی ہاں“اس نے اداس سا منھ بنایا۔

” کیونکہ فرح نہیں آئی تھی۔۔۔؟“ 

جی ہاں۔۔ مگر دہرانے کی کیا ضرورت ہے؟“ وہ سوال کی تکرار پر یکدم ہی بدمزہ ہوا تھا ۔

”کیونکہ اب اس کا مداوا ہو جائے گا“ اس نے اس کے رخسار ہَولے سے چھو کر مسکرا کر کہا ۔

”سچ مما ۔۔کیسے؟“ اس کی خوشی دیدنی تھی۔

” ایسے۔۔۔“ اس نے کھڑکی کی جانب اشارہ کیا جو باہر کاریڈور میں کھلتی تھی۔ کاریڈور کے بالکل سامنے ٹیرس تھا اور ٹیرس سے کچھ پیچھے سیڑھیاں تھیں۔ سیڑھیوں سے دونوں ماں بیٹی چلتی ہوئی کھڑکی سے نظر آ رہی تھیں۔