وقار ایک پل کو تو بہت خوش ہوا تھا۔مگر اگلے ہی پل اس نے چہرے پر غصے کا خول چڑھا لیا تھا۔

” تم سکول کیوں نہیں آئی تھیں آج۔۔۔؟ خیر، میں کیوں پوچھ رہا ہوں ۔یونو آج بہت مزہ آیا۔ اک  چپکو سے جان جو چھوٹی ہوئی تھی“

”ہونہہ رہنے دو مجھےبھی گھر پر بہت مزہ آیا ۔مما کا ہاتھ بٹایا۔ مزے کی ڈش بنائی“ 

”ہا ہا۔۔ تم اور ڈش۔۔۔Let me guess تم نے کیا بنایا ہوگا‏how to boil water۔۔۔یہی سیکھا ہوگا اور پھر بعد میں وہ بھی ٹھیک سے نہیں ہوا ہو گا ۔بڑی آئی۔۔!“

 آتے ہی جہاں دونوں بہنیں نہایت گرم جوشی کے ساتھ ایک دوجے سے ملی تھیں۔ وہیں ان دونوں کی ہمیشہ کی طرح جنگ کے ذریعے سلام دعا ہوئی تھی۔

” جی نہیں۔۔۔ میں نے کھیر بنائی تھی وہ بھی کھوئے والی“ اس نے پتلی سی ناک مزید غصے سے سکوڑتے ہوئے کہا ۔

آواز قدرے مہین اور تیکھی تھی۔ جب غصے سے چلاتی تو سامنے والا کانوں پر ہاتھ رکھنے پر مجبور ہو جاتا ۔

”رہنے دو فرح۔۔جھوٹ کم بولا کرو “وہ بے نیازی سے بولا ۔

”تم جھوٹے ہو۔۔ میں سچ کہہ رہی ہوں“ اپنی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے وہ حلق کے بل چلائی تھی۔

 اِدھر دونوں بہنیں چھپ کر دونوں کی عکس بندی کرنے میں مصروف تھیں۔

” جب یہ بڑے ہو جائیں گے تب دکھاؤں گی انہیں یہ ویڈیو “نرجس نے کیمرہ بند کرتے ہوئے ہوئے ہنس کر کہا تھا۔

” یہی تو چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں نرجس بہن۔۔ کون جانے آگے کا وقت کیا لے کر آئے“نیلوفر کے لہجے میں نجانے کون سا کرب تھا۔

”خدا ان دونوں کو سدا ایسے ہی رکھے“ نرجس نے دعائیہ انداز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہاتھا۔

” آمین ۔۔“نیلوفر نے دونوں بچوں کو دیکھ کر کہا جو اب لڑائی بھول کر یوں کھیل میں مگن تھے گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگیں۔

                          ***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***

”ارے دیکھو تو کون آیا ہے“

”اوئے کالا کوا ہے چل ہشش۔۔“

”اوئے آیا افریقہ کا سلطان۔۔ “

”کیا کوئلے کی دلالی میں منہ کالا کرکے آرہا ہے؟؟ “

”یا پھر۔۔۔“

” کیا ہو رہا ہے یہ ۔۔؟“دفعتا وقار وہاں آ گیا تھا۔