ایک پل کو تو اس سات سالہ لڑکے کو دیکھ کر ان 12سال لڑکوں کو چپ ہی لگ گئی تھی۔
”مذاق اڑا رہے ہو؟ شرم نہیں آتی؟ خود کو اس کی جگہ رکھ کر دیکھو ۔تمھیں پتہ چلے گا کہ کتنی تکلیف ہوتی ہے“
وہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا لڑکے کا نام جَون تھا جو اپنی معمولی رنگت اور نسبتا کم قد کی وجہ سے اکثر اسکول کے سینئرزکے مذاق کا نشانہ بنتا تھا۔وہ وقار کا ہم جماعت تھا۔
”اوئے تو کون ہوتا ہے کسی کو کسی کی جگہ بتانے والا۔۔ چل بھاگ یہاں سے “ایک پل کے رعب کا حصار ٹوٹا تو وہ اس پر ٹوٹ پڑے۔ وہ کل پانچ لڑکے تھے۔
” میں نہیں جاؤں گا۔ پہلے اس سے سوری کرو اور وعدہ کرو کہ دوبارہ مذاق نہیں اڑاؤ گے“
”اوہ اچھا۔۔۔ لوآؤ کرتے ہیں وعدہ ۔۔“ان کے سرغنہ نے ہاتھ آگے بڑھایا اور دو قدم آگے ہوا۔
خطرے کے پیشگی احساس کے تحت وقار دو قدم پیچھے ہوا۔ جون نے بھی دو قدم پیچھے ہٹائے۔
”آؤ کرتے ہیں وعدہ “یہ کہنے کے ساتھ ہی اس کا ہاتھ وقار کی جانب بڑھا۔ باقی سب اب بھی وہیں کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔
وہ جانتے تھے کہ اس سات سالہ ننھے منھے کے سامنے ہمارا لیڈر ہی کافی ہے ۔مگر اگلے ہی لمحے انہیں اندازہ ہوا کہ وہ غلط تھے۔
اس کا وقار کی جانب بڑھتا ہاتھ اب وقار کے ہاتھ میں تھا۔
وقار کا طیش بھرا چہرہ اب پر سکون ہو گیا تھا، اور پھر سپاٹ۔۔۔لڑ کا اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرنے لگا ۔وقار نے اس کا ہاتھ آہستہ آہستہ دبوچنا شروع کیا۔
اس نے درد بھری ایک نگاہ وقار پر ڈالی۔ بائیں ہاتھ سے مقبوضہ ہاتھ چھڑانے کے لیے بھرپور کوشش کی ۔مگر اس کی گرفت خاصی مضبوط تھی۔
اس کے ہاتھ کا شکنجہ اس پر لحظہ بہ لحظہ کستا چلا جا رہا تھا ۔اس نے بے بسی سے وقار کے چہرے پر نگاہ ڈالی۔ وقار کا چہرہ سپاٹ تھا ۔
”ارے دیکھ کیا رہے ہو؟ مدد کرو۔۔ یہ پاگل ہو گیا ہے “ وہ رو دینے کے قریب تھا۔ سب نے ایک ایک کرکے زور لگا لیا مگر بے سود۔۔۔
بالآخر اس نے آخری وار اپنایا۔ اپنے دانت وقار کے ہاتھ میں گاڑھ۔۔۔۔
مگر وہ بھی آگے سے وقار تھا۔ اسے موقع دیتا تو وہ اسے کاٹنا ناں۔۔ وقار کے بے تاثر چہرے پر مسکراہٹ آئی ۔
”جون بھلا کون سا جانور ہوتا ہے جو کاٹتا ہے“
”شاید مچھر“ اس نے دبے ہوئے انداز میں جواب دیا۔
” کریکٹ۔۔۔“ وہ ہنسا اورپھر فورا ہی اس کے چہرے پر سنجیدگی نے ڈیرہ جمایا ۔اور جتنا زور اس میں باقی تھا اس نے اس بارہ سالہ بدتمیز لڑکے کے ہاتھ پر ڈال دیا تھا۔
اس کی چیخ نکل گئی تھی ۔اب اس کی مزاحمت بھی دم توڑ گئی تھی۔
0 تبصرے