بس وہ چلا رہا تھا اور رو رہا تھا۔
” جی تو چاہ رہا ہے کہ ابھی تم سے وعدہ لوں کہ دوبارہ جَون تو کیا ۔۔کبھی کسی کمزور بچے کو نقصان نہیں پہنچا ؤ گے۔ مگر تم اپنی ضد میں ہاتھ بازو سے الگ کروا بیٹھو گے“ پر رعب انداز میں کہتے ہوئے ایک زبر دست جھٹکے سےاس نے اس کا ہاتھ چھوڑا تھا ۔روتے ہوئے لڑکے نے چہرا موڑا۔
”چہ چہ چہ ۔۔ وہ تمہارے چیلے تو کب کے بھاگ گئے۔۔ اب تمہیں کیا کرنا ہے پتا ہے یا وہ بھی میں بتاؤں؟“ اس نے بازو سینے کے گرد لپیٹے۔ تو اسے کیا کرنا تھا۔ اسے ایک ہی کام کرنا تھا وہاں سے رفو چکر ہونا۔۔۔ اور وہ ہو گیا۔
” تھینک یو وقار“ اس نے اسی خائف اور دبے انداز میں کہا ۔وہ انتہائی شرمیلا،
کم اعتماد اور احساس کمتری کا شکار، سیاہ فام بچہ تھا ۔
”شکریہ کس بات کا “اس کی مسکراہٹ سمٹی۔ ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
” وہ۔۔۔“ اس نے ہچکچاہٹ سے اس کی جانب دیکھا۔
” تم نے میری جان بچائی“
” کیا ۔۔۔؟“وہ حیران ہوا تھا ۔
”جان بچائی۔۔۔؟ کیا تمہاری جان پکڑے بیٹھے تھے وہ؟ حد ہے ۔۔یوں ڈرو گے تو دنیا تو کھاجائے گی تمہیں ۔تھوڑا دلیر بنو“ اس نے اس کے کندھے تھام کر کہا۔
” اور ایک بات “اس نے توقف کے بعد کہا۔
”جو دوسروں پر انحصار کرتا ہے وہ کبھی بھی کامیابی کا زینہ نہیں چڑھ سکتا ۔تم سمجھ رہے ہو نا؟“ وہ پتا نہیں سنا کیا اور سمجھا کیا۔۔۔ بس اثبات میں سر ہلادیا ۔
”گڈکلاس میں چلیں؟“ جَون نےایک بار پھر سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ وقار مسکرا کر اس کے ساتھ کلاس روم کی جانب بڑھ گیاتھا۔
وقار کو ایسے لوگوں سے دوستی کرنا پسند تھا جو کمزور ہوتے یا کسی کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار رہتے۔ جون انھیں میں سے ایک تھا ۔جسے احساس کمتری سے نکالنے کا بیڑا وقار نے اٹھایا تھا۔ اور وہ اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوا تھا ۔
جون کا کوئی دوست نہ تھا سوائے وقار کے۔ اس کے علاوہ فرح بھی اس کے ساتھ کھیل لیتی تھی۔ کیونکہ وقار نے اس سے کہا تھا کہ جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا خدا ہوتا ہے۔۔ اور ایسے لوگوں کے قرب سے خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے۔
***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***
”اسلام علیکم مما“
” وعلیکم السلام میرا بیٹا “اسی کے بلند بانگ لہجے میں مردانہ آواز میں جواب سلام ملنے پر اسے خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔
آج فرح پھر چھٹی پر تھی اور گھر آتے ہوئے پھر اسے انتہائی غصہ آ رہا تھا۔ یہ تو جون کے ساتھ آج اچھا وقت گزر گیا تھا ورنہ وہ بہت بور ہو جاتا ۔
” بابا جان آپ یہاں۔۔۔!“
0 تبصرے