تمہیں کس نے کہا میرے بھائی کا نام رکھنے کو؟“
” کیا۔۔۔؟“ اس کے الفاظ سے زیادہ وقار اس کے لہجے اور چہرے کے سخت تاثرات پر زیادہ حیران ہوا تھا۔
” میرے بھائی کا نام دلاور ہے سمجھ آئی؟“ اپنی مہین آواز میں وہ چلائی ۔
”فرح بیٹے بری بات ہے “پرویز صاحب نے بیٹی کو گھر کا۔
” لیکن فرح ۔۔برہان نام بھی تو اچھا ہے“ وقار اس کے چہرے کو بہ غور دیکھتے ہوئے بولا۔
” یہ میرا بھائی ہے تم نام رکھنے کی کوشش مت کرو“ وقار اس کا لہجہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا ۔ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک یہ دونوں لڑتے ہی آئے تھے ۔ مگر آج جو تاثرات فرح کے چہرے پر تھے، آج سے پہلے اس نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ یہ اس کا بالکل نیا روپ تھا جو وہ دیکھ رہا تھا۔
” فرح کیا ہوگیا ہے؟“ اس نے حیرت سے اس سے پوچھا تھا۔
”یہ میرا بھائی ہے دو مجھے۔۔“ فرح نے بچہ اس کی گود سے جھپٹ لیا تھا۔ وقار سمیت سب کی چیخیں نکل گئی تھیں۔
اگر نیلوفر بروقت فرح کونا سنبھالتی تو جھٹکے کے باعث وہ لڑکھڑا کر بے بی سمیت گر جاتی ۔
”فرح یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔!“ اپنے جگر گوشے کو بال بال بچتے دیکھ کر نرجس کا دل ڈوب کر ابھرا تھا ۔
”مما میں کہہ رہی ہوں میرے بھائی کا نام دلاور ہے۔ دلاور ہے ۔دلاور ہے ۔“
”سس ۔۔اچھا بابا دلاور ہی ہے چلا نا بند کرو “نیلوفر نے کراہ کر کانوں پر ہاتھ رکھے۔
” بچہ اس نے پہلے ہی نرجس کی گود میں ڈال دیا تھا۔
” سوچ لو فرح“ وقار کے چہرے پر حد درجہ سنجیدگی آگئی تھی۔
” میرے بھائی کا نام دلاور ہے وقار“ اس نے بھی ضدی پن میں جواب دیا تھا۔
”اوکے فائن۔۔۔ یاد رکھنا فرح آج تم نے مجھے اپنے بھائی کا نام نہیں رکھنے دیا۔ ایک دن ایسا آئے گا کہ تم میرے رکھے ہوئے اس نام کو پسند کروگی جو تمہاری گود میں ہوگا“
” ایسا کبھی نہیں ہوگا“ اس نے باریک آواز میں سکارف والا سر دائیں بائیں گھمایا۔
” ” ایسا ضرور ہوگا فرح۔۔۔ ضرور ہو گا“ اتنا کہہ کر وہ رکانہیں تھا ۔بلکہ تیزی سے چلتا ہوا کمرے کا پردہ ایک جھٹکے سے اٹھا کر باہر نکل گیا تھا ۔
سب اس کی اس حرکت پر حیرت سے گم سم تھے۔ خود نورعلی پوتے کی ابھرتی ہوئی صلاحیتوں پر حیرت زدہ تھے۔ پیشین گوئی کی خوبی اسے دادا سے ورثے میں ملی تھی ۔مگر وہ اتنی چھوٹی عمر میں اتنا بے ساختہ ہو جائے گا نورعلی کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔
” سو میرا بیٹا گیا تو میں بھی چلتی ہوں۔۔وقار بیٹا رکو۔۔۔“ نیلوفر اسے آوازیں دیتی پردہ اٹھا کر باہر نکل گئی تھی۔ فیروز صاحب بھی معذرت کرتے اس کے پیچھے لپکے تھے۔
باقی رہ گئے افراد حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ عجیب سی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ وقار کی اس حرکت کو ماسوائے نورعلی کے کوئی سمجھ نہیں پایا تھا ۔اور حالات کا تقاضا نور علی کے لیے یہی تھا کہ وہ خاموش رہتے۔
”وقار، میری جان برا لگا؟“ گھر پہنچ کر نیلوفر نے بیٹے کو پیار کرتے ہوئے پوچھا تھا۔ اس نے اس کےہاتھ سے نوٹ بک پکڑ لی جس پر وہ نقش ونگار بنا رہا تھا ۔
”کس بات کا مما“ وہ حیران ہوا تھا ۔
”فرح نے تمہیں اپنے بھائی کا نام نہیں رکھنے دیا“ وہ ہمدردی سے پوچھ رہی تھی۔ فیروزصاحب بھی اس کے ساتھ صوفے پر آکر بیٹھ گئے تھے ۔
”نہیں مما، مجھے برا کیوں لگنے لگا ۔وہ اس کا بھائی ہے میرا تھوڑی ہے۔حق رکھتی ہے وہ اپنے بھائی کا نام رکھنے کا۔“ اس نے متانت سے جواب دیا۔
ماں نے نم آنکھوں کے ساتھ گلے سے لگا لیا۔ فیروز صاحب نے بھی فخریہ نظروں سے بیٹے کی پشت اور بیوی کے نم چہرے کی جانب دیکھا ۔ان کا بیٹا ان کے فخر کا ذریعہ تھا۔
***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***
وقار ایک اچھا اور سمجھدار بچہ تھا ۔یہی وجہ تھی کہ ماں باپ نے اسے ہتھیلی کا پیڑا بنا کر رکھا ہوا تھا ۔لیکن جان سے عزیز اس گل بدن کی ماں نے تربیت میں بھی کوئی کمی نہ رکھی تھی۔ وقت اور موقع پر دنیاوی اور دینی تربیت ساتھ ساتھ چل رہی تھی اور ضرورت پڑنے پر سرزنش بھی ہوتی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ اس کی شخصیت نکھر کر باہر آ رہی تھی۔ اسے آج سے دو سال قبل کا واقعہ یاد تھا جب وہ پانچ سال کا تھا۔ ”اسلام علیکم مما“ سکول سے گھر داخل ہوتے ہی اس نے سلام کیا۔ فیروز صاحب ان دنوں کاروبار میں الجھے ہوئے تھے۔ اس لیے اسے قریب چھوڑ کر واپس فیکٹری چلے جاتے تھے۔ وہ الیکٹرانکس فیکٹری میں اوسط درجے کے ملازم تھے۔
” واؤ۔۔۔!“ کمرے میں جاتے ہوئے راستے میں اسے ایک قابل دید چیز دکھ گئی تھی۔ وہ تھا موبائل چارجر۔ جو لاؤنج میں پڑی میز پر پڑا تھا ۔ٹیبل سے آگے جتنے قدم وہ چلا تھا اتنے ہی ریورس میں پیچھے ہٹائے۔
” یہ کتنا پیارا ہے “وہ کرسٹل چارجر کو ہاتھ میں پکڑ کر بولا۔ شاید نیلوفر گھر پر نہیں تھی۔
”لگتا ہے مما آج ہی نیا لائی ہیں۔ یہ وہی چارجر ہے جس میں سے رین بو لائٹس نکلتی ہیں“ وہ اس کے ساتھ کھیلنے لگا تھا۔
پن سے پکڑ کر گول گول گمانے لگا۔ چارجر بیچارہ کتنی دیر ظلم سہتا.... آخر اس نے اس کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔
0 تبصرے