” اوپس ۔۔۔“زوردار آواز کے ساتھ چارجر تار سے الگ ہوکر زمین پہ آ رہا۔ اب وقار صاحب کے چہرے کا رنگ متغیر ہوا ۔

اور تبھی اسے احساس ہوا کہ ماں کو گھر میں غیر موجود سمجھنا اس کی بہت بڑی غلطی تھی۔ لانڈری میں نل چلنے اور اس کے ساتھ پانی کی چھپا چھپ کی آواز برابر آ رہی تھی۔ جسے وہ چارجر کے حسن میں کھو کر نظر انداز کر رہا تھا ۔اب تو وہ آواز کسی بھوت کی آواز معلوم ہورہی تھی ۔

یوں گمان ہوتا تھا گویا ٹب میں کپڑوں کی نہیں بلکہ وقار کی دھلائی ہو رہی تھی۔

”اف۔۔۔ کیا کروں“ چارجر کے ساتھ ممکنہ حد تک تار کو جوڑ کر اس نے وہاں سے کھسک جانے میں ہی عافیت سمجھی تھی ۔مگر وہ چارجر ایک بار الگ ہو گیا تو ہو گیا۔ دوبارہ کیوں جڑتا بھلا۔ پھر سےایک سے دو بن بیٹھا۔گویا یک نہ شد دو شد۔۔۔

”وقار بیٹا آئے ہو کیا؟“ تھوڑی دیر بعد وہ لانڈری سے نکلی تو بیٹے کا خیال آیا۔

” میں تمہارے قربان۔۔ماں کو آواز دو“

”وقار۔۔۔مما کی جان کہاں ہو؟ “وہ اسے آوازیں دیتی اس کے کمرے تک آئی۔ ”وقار۔۔۔“ وہ کمرے سے باہر آئی۔

”کمال ہے۔۔ سلام کی آواز سنی تو تھی میں نے۔ وقت بھی اوپر ہو گیا ہے “ لاؤنج میں لگے وال کلاک کو دیکھ کر اس نے پریشانی سے کہا۔ 

”وقار بیٹا۔۔۔“ کرسی پر بیگ کر دیکھ کر اس کی پریشانی میں اضافہ ہوا ۔

”بیگ اس کا یہاں ہے۔ اس کا مطلب وہ آچکا ہے۔ اور اگر موجود ہے تو آواز کیوں نہیں دے رہا ۔یا اللہ اسے کچھ ہو تو نہیں۔۔۔“ چھوٹی چھوٹی بات پر ہول کھانے والی ماں اس سے آگے سوچ نہ سکی تھی۔ اور تبھی اس کی نظر میز پر پڑے چارجر پڑی ۔

مگر یہ کیا ۔۔۔۔شاید زیادہ سوچنے کی وجہ سے چارجر اور تار نیلوفر کو الگ الگ نظر آ رہے تھے۔ مگر جب قریب گئی تو وہ واقعی ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔

” ہائے اللہ اسے کیا ہوا؟ یہ تو میں ابھی نیا لائی تھی ۔ یہ  ٹوٹ کیسے۔۔۔“اور پھر ایک پل کے ہزارویں حصے میں اسے سارا معاملہ سمجھ میں آ گیا تھا ۔

”وقار ۔۔۔وقار کہاں ہو؟ میں کہتی ہوں باہر نکلو“ نسبتا بلند آوازیں دیتی وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں ،اور پھر وہاں سے ہوتے ہوئے دوبارہ وقار کے کمرے میں آئی تھی۔

” یا اللہ۔۔۔ کہیں ڈر کر باہر تو نہیں نکل گیا۔۔!“اس نے اس کے کمرے والے واش روم کو ہاتھ لگایا تو وہ کھلتا ہی چلا گیا۔ حیرت ہے یہ لڑکا گیا کہاں۔۔۔ پروردگار وہ میری ننھی سی جان ہے!“ ایک ماں کے دل سے التجا نکلی تو انکشافات کے در کھلے۔ 

کمرے سے سانسوں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ ماں نے اس کے بیڈ کے نیچے جھانکا۔ وہ وہاں نیچے یوں آرام سے لیٹا تھا گویا بیڈ کے نیچے نہیں۔۔ بیڈ کے اوپر ہو۔

” وقار بیٹا نیچے کیا کر رہے ہو ؟باہر آؤ“بیڈ کے نیچے پڑے وقار کے بدن میں کوئی جنبش نہیں ہوئی تھی۔

” وقار نیچے کوئی چیز کاٹ لے گی ۔صبح میں نے کاکروچ بیڈ کے نیچے گھستے دیکھا تھا“ وہ جانتی تھی کہ یہ حربہ ناکام ہوگا۔ کیونکہ وہ کسی چیز سے نہیں ڈرتا تھا ۔

اُسے یاد تھا جب وہ دو سال کا تھا تو نورعلی کے لان میں ا گے پودوں میں سے ایک کینچوا باہر آ گیا تھا ۔جسے وقار نے جھاڑو کے تنکے سے کھیلتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا ۔نرجس نے دیکھا تو چیخ ماری اور اسے اٹھا کر اس کے ہاتھ دھلوائے تھے۔

خالہ کی چیخ سن کر اس نے کیڑے کے ٹکڑوں کو دیکھ کر ہنسنا شروع کر دیا تھا ۔نرجس حیرت سے بیہوش ہونے کو تھی کہ یہ کیسا بچہ ہے جسے اتنی چھوٹی عمر میں پوری سمجھ ہے ۔پھر بھی کیڑے سے ڈرنے کی بجائے کھیل رہا ہے اور ہنس رہا ہے ۔

” وقار سنائی نہیں دے رہا۔۔ میں کہہ رہی ہوں باہر آؤ“ اب کی بار ماں نے ذرا سختی سے کہا تو وہ باہر آیا۔ چہرے پر بلا کی معصومیت تھی۔ ایک پل کو ماں کا جی چاہا گلے لگا کر خوب پیار کرے۔ مگر پھر چہرے پر زبردستی سختی کا خول چڑھایا۔

” یہ آپ نے توڑا ہے؟“ وقار نے ماں کے ہاتھ میں چارجر یوں دیکھا تھا گویا وہ  کوئی ”چیز“ نہیں بلکہ کوئی” اور“ ہے جو اس کے اور اس کی ماں کے پیار کے درمیان حائل ہو گیا تھا۔ اس نے ایک حسد بھری نظر اس پر ڈالی تھی۔

” میں کیا پوچھ رہی ہوں؟ یہ آپ نے توڑا ہے؟“ اس نے ایک معصومیت بھری نگاہ ماں پر ڈالی۔ اس کے پھولے ہوئے گال، لٹکتے ہونٹ اور موٹی موٹی نیلی آنکھیں ماں کی استقامت کو توڑ رہی تھیں۔

”وقار یہ آپ نے توڑا ہے ؟“نیلوفر نے سوال دہرایا۔اس نے سر کو دائیں بائیں نفی میں ہلایا۔

جھوٹ بول رہے ہو “نیلوفر کو حیرت ہوئی تھی۔

” نہیں“ اس نے پھر سر نفی میں ہلایا ۔

”وقار بیٹا آپ کے اور میرے سوا گھر میں کوئی ہے؟ چلو شاباش بتاؤ۔ توڑا ہے نہ آپ نے؟ اس نے نرم لہجے میں پوچھا تھا۔

” نہیں مما۔۔“

” پھر جھوٹ “اب کی بار ماں کا ہاتھ اٹھا۔ اس نے بے یقینی سے ماں کو دیکھا تھا۔

زندگی میں یہ پہلاتھپڑ تھا جو اس نے کسی کے بھی ہاتھ سے کھایا تھا۔