اتنی زور سے رخسار پر پڑنے والے طمانچے کے باوجود باہمت اتنا تھا کہ ایک آنسو آنکھ سے نہ ٹپکا تھا۔
”توڑا ہے یا نہیں۔۔؟“
” جی۔۔ توڑا ہے“ اس نے سر جھکایا ۔اب ممتا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیاتھا۔ لپک کر اپنے لخت جگر کو گلے لگایا تھا۔
”مار کھا کرمانا تو کیا مانا مما کی جان۔ مجھے آپ کے جھوٹ بولنے پر غصہ آیا ۔چارجرتو دوبارہ آجائے گا۔ مگر بیٹا انسان خراب ہو جائے تو ٹھیک کیسے ہوگا ؟“وقار کی بجائے نیلو فر رو رہی تھی ۔
”مما کیا جھوٹ برا ہوتا ہے؟“ نیلوفر نے اسے خود سے جدا کیا۔اس کی چمکدار نیلی آنکھوں میں معصوم سا سوال تھا۔
”ہاں میرے لال۔جھوٹ بہت برا ہوتا ہے“ اس نے اس کے رخسار پر پیار سے انگلیاں پھیریں جہاں نازک جلد پر گہرے نشان چھپ چکے تھے۔
”کتنا برا مما؟“ ایک اور معصوم سوال۔۔۔
”اتنا برا کہ انسان کو ہلاک کر دیتا ہے“ اس کے آنسو متواتر بہہ رہے تھے۔
” مماآئی پرامس۔۔ میں آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا “ننھا سا ہاتھ شہ رگ پر رکھ کر اس نے عہد کیا۔ ماں بے اختیار ہو کر بیٹے کوبوسے دینے لگی ۔
***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***
“Good morning teacher”خوش شکل سی مس منزہ کلاس میں داخل
ہوئیں تو جماعت سوم کے بچے احتراماً کھڑے ہوئے۔
“ Good morning class sit down”
“Thank you teacher”
“How are you all?”
سمارٹ اور پرجوش سی ٹیچر نے مسکرا کر طلبہ سے پوچھا۔
“we are fine thank you”
بچوں نے رٹارٹایا جواب دیا۔
“Good... have all of you completed your homework”
“Yes Miss ”
“OK then Waqar please collect all the notebooks and bring to my.... hay
کلاس مانیٹر کی حالت دیکھ کر وہ ششدر سی کھڑی تھی۔ اس نے اس بچے کو ایسی حالت میں شاید کبھی تصور میں بھی نہیں سوچا ہوگا کجا کہ یوں سامنے دیکھنا۔
Hay what happened to you my dear۔۔۔۔
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
0 تبصرے