”وہ ۔۔مما میں اسکول جا رہا تھا تو ففتھ  کلاس کے لڑکے مجھ سے پیسے چھین کر بھاگ گئے جو بابا جان نے صبح سکول فیس کے لیے دیے تھے۔

میں ان کے پیچھے بھاگا اور انہیں پکڑ لیا۔ ہم کیچڑ میں گرے۔میں نے انہیں خوب مارا اور پیسے لے کر واپس آگیا“ اس نے کہانی مکمل کی ۔نیلوفربےیقینی  سے اسے دیکھ رہی تھی۔

” میں فریش ہو کر آتا ہوں“ وہ تو اپنی بہادری کا قصیدہ سنا کر چلا گیا تھا مگر ماں کا دل ہزاروں اندیشوں میں گھر گیا تھا۔

” اسلام علیکم“لاؤنج فیروز صاحب کی بھاری مردانہ آواز سے گونج اٹھا تھا ۔

”کیا ہوا نیلو ۔۔۔؟“سلام کا جواب نا ملنے پر انہیں حیرت ہوئی تھی ۔حالانکہ وہ ان کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس کا یوں پتھرائے ہوئے بیٹھنا دیکھ ،ان کا دن انجانے خدشے کے تحت دھڑکنے لگا تھا۔

”آپ ٹھیک تو ہیں؟ کیا ہوا ہے؟“ انھوں نے دل پر ہاتھ رکھ کر سوال کیا تھا۔

”کیا آج آپ وقار کوخود چھوڑ کر نہیں آئے؟“

” کیا ۔۔۔؟“انہیں شاید سمجھ نہیں آئی تھی۔

” میں نے کہا کیا آج آپ وقار کو اسکول خود چھوڑ کر نہیں آئے“ اس نےسوال دہرایا “

”کیوں کیا ہوا ؟“ وہ اس کے قریب صوفے پر آکر بیٹھ گئے۔

”میں نے پوچھا کیا آج آپ۔۔“

” نیلوفر پلیز ۔۔آپ مجھے پریشان کر رہی ہیں ۔ادھر دیکھیے میری طرف، کیا ہوا وقار کو؟“ انہوں نے اس کا رخ اپنی جانب موڑا تھا جو بے حس و حرکت بیٹھی تھی اور سامنے کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہی تھی۔ انہوں نے شانوں سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی جانب موڑا تھا ۔

”وہ خود ہی چلا جاتا ہے اور آج میں فیکٹری سے کچھ لیٹ بھی تھا ۔تو۔۔۔“

” تو کیا فیروز صاحب۔۔۔ اتنے زیادہ پیسے بچے کو تھما کر آپ اسے اکیلے کیسے جانے دے سکتے ہیں؟“

” کیوں؟ کیا پیسے گرا لیے اس نے؟“ انہیں ایک گونا اطمینان ہوا تھا۔ نیلوفر نے وقار کا سنایا تمام قصہ انہیں کہہ سنایا تھا۔

”تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے پگلو۔۔۔ یہ تو خوشی کی بات ہے“ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔نیلوفر نے انہیں اچھنبے سے دیکھا۔ 

”میرا بیٹا آج کسی حادثے سے بال بال بچا ہے۔ اس میں خوشی کی کون سی کِرن ڈھونڈ لی آپ نے ؟“

”حد کرتی ہو یار۔۔ آج ہمارے بیٹے نے ایک بڑا سبق سیکھا ہے کہ دنیا سے مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ اور دیکھو وہ جیت کر آیا ہے“ انھوں نے تسلی دینے کے سے انداز میں اس کے کندھے تھام کر کہا تھا۔

” میں تو یہ سوچ کر مری جا رہی ہوں فیروز صاحب کہ اگر میرے لال کو آج کچھ ہو جاتا تو۔۔۔۔“وہ رونے لگی تھی۔

” نیلوفر پلیز۔۔۔“ انہوں نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے ٹوکا۔

” کم آن نیلو۔۔۔ہمارا بیٹا بڑا ہو گیا ہے اسے۔۔“

” کیا سات سال کا بچہ اتنا بڑا ہو جاتا ہے فیروز صاحب کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے؟؟“اس نے ان کی بات کاٹتے ہوئے نم آنکھوں سے دیکھ کر پوچھا تھا۔

” نہیں نیلو۔۔ ہر سات سالہ بچہ نہیں ۔ یہ نورعلی کا پوتا ہے اسے اب اپنے پلو سے نہ باندھئے نیلو۔۔ اسے آزاد کر دیجیے ۔اپنے پروں پر اڑنے دیجئے اسے۔ پھر دیکھئے گا۔۔ آپ کو میرا فیصلہ غلط نہیں لگے گا“

” لیکن۔۔۔“

” کم آن نیلو۔۔۔ مان لیجیئے کہ آپ کا بیٹا بڑا ہو گیا ہے۔ نڈر ہو گیا ہے “انہوں نے اسے اپنے مضبوط حصار میں لیتے ہوئے تسلی آمیز انداز میں کہا تھا