”وقار چلونا کھیلتے ہیں“
” کیا تم نے سکول کا کام کر لیا ہے؟“ وقار نے مشکوک انداز سے اسے دیکھ کر پوچھا۔ ”بعد میں کرلیں گے۔ پہلے تھوڑا سا کھیل لیں“ اس کی آنکھوں میں واضح التجا تھی۔
” یہ کیا بات ہوئی فرح۔۔۔ کھیل میں تو پتہ بھی نہیں چلے گا وقت کہاں اڑ گیا “
”ہاں تو جب پڑھائی کریں گے تو کھیل کے لیے وقت ہی نہیں بچے گا ۔پتہ ہی نہیں چلے گا کہ کہاں اڑ گیا۔۔۔۔“ فرح نے اس کی بات کوقطع کرتے ہوئے اپنی مخصوص تیکھی آواز میں ترقی بہ ترقی جواب دیا۔ وقار کی نیلی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔
” بہت باتیں آتی ہیں نا۔۔۔ کھیل لو جس کے ساتھ مرضی۔۔“ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ فرح کو ندامت ہوئی۔دوڑ کر اس کے پیچھے گئی۔ وہ اپنے کیبنٹ سے بیگ نکال رہا تھا ۔
”اچھا سوری ۔۔پہلے پڑھ لیتے ہیں“ اس کے چہرے سے لگ رہا تھا تھوڑی دیر میں رو دے گی۔ وہ مسکرایا۔
” میرے ساتھ پڑھائی کروگی تو وقت زیادہ ہاتھ سے پھسلنے نہیں دوں گا فرح، آئی پرامس“ فرح اس کی اتنی سی بات پر خوش ہو گئی تھی۔مسکرا کر بیگ اٹھا لائی تھی۔
دونوں کے گھر اتنے قریب تھے کہ پیدل چلو تو پانچ منٹ لگیں۔ فیروز صاحب کے کہنے پر وقار کو اکیلے باہر جانے کی آزادی مل گئی تھی۔ مگر وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال نہیں کرتا تھا۔ فرح اکثر اپنی ماں کے ساتھ یہاں آ جاتی تھی اور دونوں مل کر پڑھائی کرتے اور کھیلتے تھے ۔
”واہ ۔۔۔کام تو بہت جلدی ہو گیا “وہ اپنی پنک ڈیجیٹل رِسٹ واچ میں ٹائم دیکھ کر چہک اٹھی تھی۔ اینالوگ واچ میں اسے ٹائم دیکھنا نہیں آتا تھا ۔پرویز صاحب نے اسے ڈیجیٹل واچ لے کر دی تھی جس پر ڈزنی پرنسس کارٹون کریکٹرز بنے ہوئے تھے۔
0 تبصرے