”وقارجھولا لیتے ہیں“اس نے کافی سوچ بچار کے بعد کھیل کا انتخاب کرتے ہوئے کہا۔

”ہوں ٹھیک ہے“چھت پر فیروز صاحب نے بچوں کے لئے رسیوں سے چھوٹا سا جھولا بنا کر دیا تھا۔ جس میں انہوں نے لکڑی کا چوڑا تختہ فکس کیا تھا۔

” اٹھو موٹی کہیں کی۔۔۔ بیٹھ کیوں گئیں؟“ اسکو شان سے جھولے پر بیٹھے دیکھ، وقار تپ گیا تھا۔

” تو کیا کروں ۔۔۔تم جھولا دو مجھے۔۔“

وہ ٹانگیں چلاتے ہوئے بولی ۔وقار کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔

”میں جھولا دوں تمہیں۔۔؟“ اس نے ”میں“ پر زور دیتے ہوئے اپنے سینے پر انگلی رکھی۔

”ہاں تو۔۔۔۔ جب تمہاری باری آئے گی تم بیٹھ جانا میں دوں گی پھر تمہیں جھولا“ فرح کو حیرت اس بات کی تھی، کہ وقار کو حیرت کس بات کی تھی۔

”میں کسی سے جھولا نہیں لیتا “اس نے برا سا منہ بنایا۔

” تو کیا تمہارے فرشتے آ کر دیتے ہیں؟“ وہ اس کی بات ابھی سمجھ نہیں پائی تھی۔ ”میں کھڑا ہو کر جھولا چڑھاتا ہوں۔ تم بھی کھڑی ہو کر چڑھاؤ“اس نے حکم جاری کیا۔

” مگر مجھے کھڑے ہوکر جھولا جھولنا نہیں آتا وقار۔۔“ اس نئی افتاد پر وہ رو دینے کے قریب تھی۔

”میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں۔ پھر میں تمہیں سکھاؤں گا تو تم سیکھ جاؤ گی ۔چلو اٹھو شاباش“

نن۔۔۔نہیں مم۔۔۔ میں گر جاؤں گی“ اس نے وقار سے ہاتھ چھڑاتے ہوئے گھبرا کر کہا تھا۔

”ارے بابا میں نہیں گرنے دوں گا کم آن۔۔۔“ وقار کے اصرار پر فرح بمشکل اس کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔