” چلو شروع کرو“ وقار نے اس کو بیلنس کرتے ہوئے کہا۔فرح نے تھوڑا سا زور لگایا۔ تھوڑا زور وقار نے لگایا اور جھولا آہستہ آہستہ بلند ہونے لگا۔ گھبراہٹ سے فرح کا ہاتھ چھوٹا۔ اس کی چیخ نکلی۔ قریب تھا کہ گر جاتی، وقار نے بازو سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچ لیا

”میرے خیال سے یہ سٹرنگز پکڑنے کے لیے ہیں“وقار نے جھولے کی رسیوں کی جانب نگاہوں سے اشارہ کرکے کہا ۔

ایک ہاتھ میں اس نے رسی کو جبکہ دوسرے میں فرح کی بازو کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا ۔

”روکو۔۔۔“

” کیا ۔۔؟“وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا۔

”جھولا روکو۔۔۔“ اس کے لہجے میں ارتعاش واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا تھا۔ ”فرح کیا مسئلہ ہے؟“ وہ اس کی بے جا فرمائش پر بدمزہ ہوا تھا ۔

”مم۔۔۔ مجھے نہیں پتا ۔۔مجھے نہیں لینا جھولا۔ مجھے نیچے اتارو۔۔۔ وقار جھولا روکو ۔۔۔!“آخری فقرہ اس نے خوف سے چلاتے ہوئے ادا کیا تھا۔

” ڈر کیوں رہی ہو میں ہوں ناں۔ ایسے کرو گی تو سیکھو گی کیسے “

نہیں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔ مجھے نیچے اترنا ہے ۔۔نیچے اتارو“وہ رونے لگی تھی۔جھولا کافی بلند تھا۔

”میں نہیں روک رہا جھولا۔۔۔“

”مجھے نیچے اترنا ہے“روتے ہوئے وہ چلائی۔ ”فرح مجھے نہیں روکنا جھولا ۔تمہیں اترنا ہے تو اتر کر دکھا دو“اسے اس کے بے وجہ خوف پر غصہ آگیا تھا۔ 

مگر اس کا یہ فقرہ اس کے لیے بے حد مہنگا پڑ گیا تھا۔فرح اسی لمحے بلند چڑھتے جھولے سے نیچے کود گئی تھی ۔عین اسی لمحے نیلوفر ان کے قریب آ گئی تھی۔ اس نے فرح کو تھام لیا تھا ۔

خوف سے وقار نے بلندیوں کو چھوتے جھولے سے نیچے پاؤں لگا کر ہنگا می بریک لگائی تھی جس کی وجہ سے اسے زبردست جھٹکا لگا تھا۔ وہ ششدر سا ہو کر ماں کی گود میں سسکتی فرح کو دیکھ رہا تھا ۔اسے ہر گز توقع نا تھی کہ فرح اتنے بلند جھولے سے نیچے کود جائے گی۔

”فرح بیٹی اتنی بلندی سے چھلانگ لگادی۔۔۔ میں نہ آتی تو ٹانگ ٹوٹ جاتی تمہاری “

”نہیں تائی مما، میں نے نہیں لگائی چھلانگ۔۔۔ وقار نے دھکا دیا ہے مجھے“ وہ سسکتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

”نن۔۔۔ نہیں میں نے کب۔۔ جھوٹی کہیں کی۔۔ مما میں نے نہیں دیا۔۔۔۔دھکا اسے“ اس الزام پر وہ بری طرح گھبرا گیا تھا۔ چہرہ ٹماٹر کی طرح سرخ ہو رہا تھا ۔پسینے سے شرابور اور اوپر سے گھبراہٹ میں نکلنے والے ٹوٹے پھوٹے الفاظ.نیلوفر نے انہیں تنبیہی نگاہوں سے دیکھا۔

”اوکے فائن ،جو ہوا سو ہوا۔ دوبارہ ایسا مت کرنا اوکے“ وہ آتے ہوئے فرح کو کودتے دیکھ چکی تھی۔ مگر اس نے کسی کو کچھ نہیں کہا تھا۔ 

وگر نہ اب تک وقار کی شامت آ جاتی۔اب وہ دونوں اس کے ہاتھ سے کھیر کھا رہے تھے جو وہ ان کے لیے بنا کر لائی تھی۔

                ***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***

”وقار میں آج بہت تھک گئی ہوں آپ آج ہوم ورک خود ہی کر لینا اورجس چیز کی سمجھ نہ آئے بعد میں پوچھ لینا“ اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹی ہوئی نیلوفر صاحبزادے کو ہدایات دے رہی تھی۔