”آپ کی طبیعت ٹھیک ہے مما ؟“اس نے فکر مندی سے ماں کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تھا۔

”ہاں میرے چاند، بس تھوڑا تھک گئی ہوں۔ بہت کپڑے دھوئے ہیں میں نے۔ مجھے چار بجے جگا دینا۔ پھر باقی کا کام نمٹاؤں گی“

”اوکے مما۔۔ہیو سوئیٹ ڈریمز۔۔“ اس نے ماں کے گال پر بوسہ دیا ۔نیلوفر نے مسکرا کر آنکھیں بند کر لیں ۔وقار نے ہولے سے دروازہ بند کر دیا۔

 وہ نہایت ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ محنتی بھی تھا۔ ماں نے لاڈ پیار کے ساتھ ساتھ تربیت میں بھی کوتاہی نہ کی تھی۔ وقار کے لیے سب سے زیادہ گراں بہا نعمت اس کی ماں تھی جو اپنے پورے وجود، جان و دل سے بھی زیادہ اس سے پیار کرتی تھی۔ بیٹے سے متعلق چھوٹی چھوٹی باتوں پر رو دینے والی اس کی یہ جنت اسے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز تھی۔

 چھوٹی سی عمر میں اس بچے نے 50 سال کا فہم و ادراک حاصل کیا ہوا تھا ۔آنے والے وقت میں اس سے زیادہ ذمہ دار بچہ کوئی نہ دیکھے گا۔۔۔!

ارے ۔۔۔اتنے کپڑے!“ حیرت کے مارے وقار نے بمشکل منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ رو کی تھی۔

” ہوم ورک کر کے وہ لانڈری میں آیا تھا جہاں ایک ڈھیر کپڑوں کا اسے منہ چڑھا رہا تھا ۔سب کپڑے بس مشین سے نکالے گئے تھے اور ان میں سرف ہنوذ موجود تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا ۔اس بات سے اس نے اندازہ لگایا تھا کہ ماں کتنا تھکی ہوئی تھی۔

 چار بج رہے تھے اور سوئی ہوئی ماں کا شیر اس کے دھلے ہوئے کپڑے صاف پانی میں سے نکال کر اوپر پھیلا رہا تھا ۔