”مائی گاڈ ۔۔۔۔چھ بج گئے۔۔!“نیلوفر صدمے کے مارے صوفے پر گری۔ وقار نے پانی کا گلاس اس کے لبوں کو لگایا۔ ”حوصلہ مادرِ گرامی۔۔“ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں سے جدا نہیں ہو رہی تھی۔
”حوصلہ کے کچھ لگتے۔۔ میں نے تمہیں چار بجے اٹھانے کا کہا تھا نہ۔۔؟ جانتے بھی ہو کتنا کام تھا“ اس نے غصے سے اسے دیکھا۔ ”مجھے کیوں ڈانٹ رہی ہیں؟ میں نے کیا کیا ہے “ایک تو اس کی بے وقت معصومیت بھری شکل بنانا۔۔اف!
”اتنے کام تھے مجھے، کپڑے چھت پر پھیلانے تھے، ہنڈیا بنانی تھی پوری صفائی باقی تھی۔۔۔ کوئی سمجھتا ہی نہیں “ہڑبڑاتے ہوئے وہ لانڈری میں آئی تو نیا منظر دیکھ کر نئے صدمے سے بے ہوش ہونے کو ہو گئی ۔ صاف ستھری چکاچوند ماربل کی لانڈری اسے منہ چڑھا رہی تھی۔
”یہ۔۔۔ یہ کپڑے کہاں گئے؟
”کیا ہوا مما ۔۔۔کپڑے کہاں چلے گئے؟“ اللہ اکبر! بے علمی کا یہ عالم۔۔۔ نیلو فر غش کھاتے کھاتے بچی ۔وہ تو بیٹے کی شرارت بھری ہنسی اسے سنائی دے گئی تھی۔
”وقار۔۔۔ کہاں ہیں کپڑے؟؟؟“ نادیدہ خطرے کو جھٹکتے ہوئے اس نے بیٹے سے پوچھا تھا۔ وقار نے ماں کی بازو کھینچنا شروع کی۔
”دیکھو وقار، میرے پاس تمہاری شرارت کے لئے وقت نہیں ہے۔ اگر تم نے کچھ الٹا سیدھا کیا نا۔۔ تو میں کہہ رہی ہوں، اتنی پٹائی کروں گی کہ۔۔“ وہ اس کے ساتھ چھت پر آ گئی تھی جہاں سارے کپڑے تار پر پھیلائے ہوئے تھے۔
” سرپرائز۔۔۔! اس نے تار کی جانب دونوں ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا ۔
جواب میں نیلوفر نے زور سے ہاتھ پیشانی پر ہاتھ مارا ۔
”کیا ہوا مما؟“ وہ جو کچھ اور ہی توقع کر رہا تھا ماں کا بالکل ہی غیر متوقع ردعمل پا کر کچھ پریشان ہوا ۔
”کتنی بار تم سے کہا ہے میرا چاند تو ابھی چھوٹا ہے۔ ان کا موں میں نہ پڑا کر “ اس کی رونے والی صورت دیکھ کر وقار مزید پریشان ہو گیا تھا ۔اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ماں اتنا ناراض کیوں ہے۔ اس سے کیا غلطی ہوگئی تھی؟
” سب کپڑے کھنگالنے والے تھے وقار۔۔۔ اور تم نے ایسے ہی ۔۔۔اف کتنا کام بڑھ گیا ہے“ وہ ہڑبڑا کر کپڑے اتار سے اتار رہی تھی جو کافی حد تک خشک ہو چکے تھے۔
”مما۔۔مما سٹاپ پلیز۔۔۔“ اس نے بڑھ کر ماں کے تیزی سے چلتے ہاتھ روکے۔
”بدھو سمجھا ہے کیا۔۔۔؟ میں چھوٹا بچہ نہیں ہوں۔ کپڑے کھنگال کر ڈالے ہیں میں نے“اس کے گال غبارے کی مانند پھولے۔
”او ریئلی۔۔!“
” لو ۔۔۔وقار نےکبھی جھوٹ بولا ہے؟“ اپنے لاڈلے اور ہونہار فرزند کے منہ سے نکلے یہ الفاظ ماں کے لیے روح افزا ثابت ہوئے تھے۔ وہ کھل کر مسکرائی تھی۔ اور جب اس پر سے عجلت کا بھوت اترا تو اس نے محسوس کیا کہ اس کے ہونہار فرزند نے سفید کپڑوں کو نیل بھی دیا تھا۔ اب وہ فرصت سے تار پر لٹکے کپڑوں کو دیکھ رہی تھی۔
” کیسا لگا سرپرائز مما ؟“وہ اس کے قریب آیا ۔
”بہت اچھا میرا چاند۔۔ تھینک یو سو مچ میرا بیٹا۔۔“اس نے جذباتی ہو کر اس کے پورے چہرے کے بوسے لے لئے تھے۔
”آج مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میرا بیٹا جوان ہو گیا ہے۔ ذمہ دار ہوگیا ہے۔ آج میں بہت خوش ہوں وقار۔۔!“ وہ اسے گود میں اٹھا کر نیچے لائی تھی۔
وقار ماں کی آغوش میں ہمیشہ مست ہو جایا کرتا تھا ۔ماں کے قرب میں اس پر عجب کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ یہ اس کی وہ جنت تھی، جس کے حصار میں رہ کر اسے تمام نعمتوں کی لذّت کا احساس ہوتا تھا۔
ایسی جنت جس کی چار دیواری میں رہ کر سکون ہی سکون تھا ۔ہر درجے ٹھنڈک تھی۔ ایسی ٹھنڈک ،جس میں سرور تھا ۔ نشہ تھا۔ اس کی کیفیت یہ ہو جاتی تھی کہ بدن تروتازہ ہو جاتا تھا ۔سیاہ ریشمی بالوں کا ماتھے پر آیا پف آہستگی سے ہلنے لگتا تھا(ماں کے قرب پر اس کے ساتھ ایسا ضرور ہوتا تھا)۔
”بس اب کھانا بنا لوں۔۔ تمہارے بابا آنے والے ہیں۔ میں تمہیں ان سے بڑا سا انعام دلواؤں گی“چھت سے نیچے لا کر اس نے اسے چارپائی پر اتارا ۔
صفائی میں کر دیتا ہوں۔۔“ اسے ماں کے کاموں کی لسٹ یاد آئی تھی۔
0 تبصرے