”بابا جان آپ سے بات کرنی ہے“ ڈنر کرتے وقت ڈائننگ ٹیبل کی خاموشی کو وقار نے توڑا تھا ۔فیروز صاحب نے چونک کر صاحبزادے کو دیکھا ۔اس کی صورت اس کے تکلیف میں ہونے اور بہت زیادہ رونے کی چغلی کھا رہی تھی۔
”بولو میرا بیٹا۔۔ خیریت ؟“کھانا کھاتے ہوئے وہ بولتا نہیں تھا۔ یہ بات فیروز صاحب کے لیے فکرمندی کا باعث بن رہی تھی۔ صرف ایک دن میں اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے بن گئے تھے۔ وہ سب کچھ چھوڑ کر صاحبزادے کی جانب متوجہ ہوئے ۔
”بابا جان وہ۔۔۔ “ اس نے ایک نظر ماں کو دیکھا وہ خاموشی سے کھانا کھا رہی تھی۔ گویا ان کی گفتگو سن ہی نہیں رہی تھی۔
” بولو بیٹا کیا بات ہے؟“انہوں نے بیٹے کا حوصلہ بڑھایا۔
”بابا جان آج مما کو۔۔۔“
” کیا ۔۔۔مما کو کیا؟؟“ کسی نادیدہ خطرے کو جھٹکتے ہوئے انہوں نے پوچھا تھا ۔ اس کا اگلا فقرہ انھیں ہلا دینے کے لیے کافی سے زیادہ ثابت ہوا تھا ۔
”آج مما کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا “ فیروز صاحب کا نوالہ اٹکا۔ بے یقینی سے شریک حیات کی جانب دیکھا۔ اس نے نظر تک نہیں اٹھائی تھی۔ بس خاموشی سے کھانا کھا رہی تھی۔
”بابا جان اگر مما کا بروقت ٹریٹمنٹ نہ کروایا گیا تو یہ دوبارہ بھی۔۔۔“
” کیسی باتیں کرتے ہو بیٹا ۔۔۔“بے حد حوصلہ مند ہونے کے باوجود اس کی آواز بھرا گئی تھی ۔اور مرد ہونے کے باوجود انہوں نے تڑپ کر بیٹے کو ٹوکا تھا۔
” ہم کروائیں گے نا آپ کی مما کا علاج ۔۔۔“ انہوں نے بیٹے کو تسلی دی تھی۔
”میں کل ہی لے کر جاؤں گا آپ کی مما کو اسپتال۔ ٹھیک ہے نا ؟“انہوں نے پیار سے اسے پچکارا۔
”بابا جان۔۔۔!“ وہ تڑپ کر ان کی جانب بڑھا تھا ۔انہوں نے بڑھ کر اسے سینے سے لگایا تھا ۔ماں کے دل کی دھڑکن کی تیز دھڑکن انہیں اپنے دل پر ہتھوڑے کی طرح چلتی محسوس ہو رہی تھی۔
”پریشان نہ ہو میرا بچہ ،میں کل آپ کی مما کو اسپتال لے کر جاؤں گا۔ ٹھیک ہے“ انہوں نے اس کی تیز دھڑکن کو قابو کرنے کے لیے اسے تسلی دی اور ایک بار پھر سینے سے لپٹا لیا تھا ۔اس کا پورا وجود خوف سے کانپ رہا تھا ۔ نیلوفر خاموشی سے کھانا کھا رہی تھی ۔ اور ان دونوں کی بھوک اڑ گئی تھی۔ وقار کو کل کا انتظار تھا۔ مگر نیلوفر کی زندگی میں وہ کل کبھی نہیں آئے گی۔ یہ کسے معلوم تھا۔۔۔۔
***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***
”دیکھو دیکھو بچو۔۔ بندر دیکھو“ سکول کے اسٹاف روم میں ڈائس پر کھڑے وقار کو دیکھ کر فرح کی شرارتی طبیعت مچل اٹھی تھی ۔
0 تبصرے