وہ اپنے کلاس فیلوز کو وہ حسین نظارہ دکھانے لے آئی تھی۔ وقار اپنی کلاس کا مانیٹر تھا ۔ اسمبلی کی بیل بجانے کے لیے وہ ڈائس پر کھڑا تھا۔ بیل کا بٹن خاصہ اونچا تھا۔ اس لیے وہ ڈائس پر کھڑا تھا ۔فرح کی بات سن کر اس نے نیچے دیکھا۔ اس کے ساتھ مزید بچے دیکھ کر وہ تپ گیا تھا۔ فرح کے کلاس فیلوز اس کی بات کا لطف لے کر ہنس رہے تھے ۔

”بڑی سیانی ہو تم ۔۔۔ابھی بتاتا ہوں تجھے!“وہ اطمینان سے نیچے اترا

”بندر! بندر! بندر۔۔!“ بچیاں ہنس رہی تھیں۔ وہ انہیں دیکھ کر مسکرایا ۔فرح کے قریب آیا۔ اسے خطرے کی بوآئی ۔ وقار نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ وہ اسے دیکھ رہی تھی ۔وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ بھاگنے نہیں دے گا۔ وقار کے ہاتھ اس کے کندھوں کی نچلی سمت آئے ۔اور ۔۔۔۔پھر۔۔۔۔ ایک جھٹکے میں اسے اٹھا کر اس نے اسے ڈائس پر پٹک دیا تھا۔ وہ ہکا بکا سی اپنے ساتھ ہوئی افتاد پر گھبراکر ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔

”دیکھو بچو، بندریا دیکھو۔۔“ اس نے ان بچوں سے کہا جو ابھی بھی اس پر ہنس رہے تھے ۔فرح نے چلانا شروع کیا۔ اس کے کلاس فیلوز یہ منظر دیکھ کر ڈر کر بھاگ گئے تھے۔ مبادہ اگلی باری ان کی ہو۔

” بد تمیز وقار ۔۔۔ مجھے نیچے اتارو “

”جیسے اس دن جھولے سے اتری تھی اسی طرح آج بھی اتر جاؤ“ اس نے روتی ہوئی فرح کی شکل سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہوئے سینے پر بازو لپیٹے ہوئے کہا۔

”نہیں وقار۔۔ میں گر جاؤں گی۔ ٹانگ ٹوٹ جائے گی میری “ اس نے تائی کی بات روتے ہوئے دہرائی۔ وقار اس کی معصومیت پر ہنسا ۔مگر اپنی بےعزتی کا بدلہ تو بہرحال لینا ہی تھا۔ اسے منہ چڑھا کر وہ وہاں سے کھسک گیا تھا۔