دوپہر کو فیروز صاحب بائیک لے کر اسکول کے سامنے کھڑے تھے۔ اندر سے تتلیوں کی مانند نکلتے بچوں میں وہ انہیں نظر آیا تھا۔ سلام کرنے کے بعد ان کے آگے بائک پر بیٹھ گیا تھا ۔آج وہ کچھ نہیں بولا تھا ۔آج وہ خاموش تھا ۔فیروز صاحب نے بائیک سٹارٹ کی۔ راستے میں آئسکریم دیکھ کر اس کی طبیعت مچلی۔
”بابا جان آئسکریم۔۔۔“ اس نے آئسکریم بیرو(Ice cream Barrow) کی جانب اشارہ کیا ۔
”نہیں وقار، سیدھا گھر چلیں گے“ انہوں نے ہیلمنٹ والا سر جھکا کر(کیونکہ وہ ان کے آگے بیٹھا ہوا تھا) اسے جواب دیا۔ ”او کم آن بابا۔۔۔ٹھنڈ تھوڑا ہی ہے۔ پلیز۔۔۔“ اس نے التجا کی۔ بادلِ نخواستہ انھیں بائیک روکنا پڑی۔ اسے نیچے اتارا ۔جیب سے پچاس کا ایک نوٹ نکال کر اسے دیا۔
”مما کے لئے بھی لینی ہے“ اس نے کہا۔ انہوں نے پچاس کا ایک اور نوٹ اسے تھمایا۔
” اور آپ کے لیے۔۔۔“
” مجھے نہیں کھانی وقار بس جلدی کرو“ انہوں نے تپتے سورج میں کھڑی جلتی بائیک کو چھاؤں کی طرف لیجاتے ہوئے کہا۔سامنے کھڑے آئسکریم والے سے دو بارز لیکر وہ واپس آیا اور فیروز صاحب نے بائیک سٹارٹ کی ۔
”اسلام علیکم مما۔۔ مما دیکھیے میں آپ کے لیے کیا لایا ہوں۔۔۔؟“گھر میں قدم رکھتے ہی اس نے شور مچا کر اپنی آمد کا اعلان کیا تھا۔
”آپ کا فیورٹ فلیور۔۔۔۔“ بھاگتا ہوا وقار جب لاؤنج میں پہنچا تو اس کے قدم زنجیر ہوئے۔اسے لگا اس کے قدموں میں میخیں گڑھ گئی تھیں۔ خودفیر وز صاحب سکتے میں آگئے تھے
0 تبصرے