” لکھو۔۔ نیک دل ہو۔ خوبصورت بھی ہو۔ خوب سیرت بھی۔ ہو یعنی دینداری میں یکتا ہو اور حسن میں لاجواب ہو ۔خوب سلیقہ مند اور سلیقہ شعار ہو۔ آواز اچھی ہو اور نعت خوانی کا شغف رکھتی ہو۔ ایک نگاہ میں اچھے برے کا فرق سمجھتی ہو۔ یعنی انسان کا ایک منٹ میں ایکسرے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اڑتی چڑیا کے پر گن لے۔ اتنی زیرک ہو کہ بنا کہے میری بات کو سمجھے اور فورا عمل کر ڈالے۔ فرمابردار ایسی ہو کہ ابھی میں سوچ رہا ہوں، اور وہ اٹھ کر کام کردے۔ پیار کرنے والی ہو۔ نہ صرف مجھ سے، بلکہ میرے نور نظر سے بھی۔ اور سب سے بڑی بات۔۔۔۔۔ خود غرضی، تعصب ، حرص و لالچ اور حسد سے پاک ہو۔ اور وقار کے ساتھ ساتھ مجھے بھی نٸی زندگی فراہم کرے۔۔۔۔“ لسٹ مکمل ہو چکی تھی۔ سب کے ہونٹ سلے ہوئے تھے۔ ایسے میں منہ سے کچھ بھی نکالنا اپنی شامت کو گلے لگانے کے مترادف تھا۔ لہذا چپ چاپ مسکراتے ہوئے سب اٹھ کر کھڑے ہوگئے تھے۔

              ***_______________________________________***

اعزہ و اقارب اور دوست احباب مل کر فیروز صاحب کے لیے نئی شریک حیات کے انتخاب کے لئے تگ و دو میں لگ گئے تھے۔ مگر کوئی ان کے معیار اور توقعات پر پورا اترنے والے خاتون نہ ملی۔ جو لسٹ انہوں نے اپنے بہن بھائیوں کو نوٹ کروائی تھی ان صفات سے متعصف حور پری کا ملنا ناممکن نہیں تو بہت حد تک مشکل ضرور تھا


***_______________________________________***

”اے خدا ۔۔۔یہ کیسی آواز ہے!“ ایک تو خوفناک جنگل۔۔۔اور اوپر سے کسی چڑیل کی خوفناک آواز۔۔۔ فیروز صاحب کی روح تک جم گئی تھی۔ شام ہو رہی تھی فیکٹری سے واپسی پر معمول کے راستے پر کام چل رہا تھا ۔ انہیں متبادل راستہ لینا پڑا تھا۔ یہ راستہ کوئی شاہراہ نہ تھی۔ بلکہ چوڑا سا ویران میدان نما راستہ تھا ۔جس کے ساتھ ساتھ جنگل پڑتا تھا ۔جنگل کچھ خاص گھنا نہیں تھا۔ تاہم خونخوار جانوروں کی آماجگاہ تھا ۔یہ گرمیوں کا اختتام تھا اورشام پانچ بجے کا وقت تھا۔ وہ جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتے تھے۔ وقار گھر میں اکیلا تھا۔ آج ان کا نیلوفر کی وفات کے بعد فیکٹری میں پہلا دن تھا۔ ایک تو گھر پہنچنے کی جلدی۔۔ دوسرے جنگل کا خوف اور اب یہ خوفناک رونے کی آواز۔۔۔ انہوں نے جل تو جلال تو کا ورد کرتے ہوئے بائک کی رفتار میں مزید اضافہ کیا۔ مگر کچھ دور جا کر دانستہً رفتار کم کی۔ بلکہ رک ہی گئے تھے۔

” اگر یہ کوئی آسیب یا ہوائی مخلوق ہوتی تو وقت اور فاصلہ بڑھنے کے ساتھ اس کی آواز کم نہ ہوتی، بلکہ دور تک تعاقب کرتی۔ یہ ضرور کوئی مصیبت کی ماری عورت ہے “انہوں نے خود سے حساب لگایا ۔ اور پھر بائیک کا رخ موڑ لیا۔ وہیں واپس آن کھڑے ہوئے جہاں وہ نسوانی رونے کی آواز نسبتا زیادہ بلند اور صاف سنائی دے رہی تھی۔آیت الکرسی  کا ورد کرتے ہوئے انھوں نے قدم جنگل کے اندر رکھ دیئے تھے۔ بائک ایک درخت کے ساتھ وائرلاکڈ کردی تھی۔ جیسا کہ بتایا کہ جنگل کو خونخوار جانوروں کا مسکن تھا۔ لہذا یہ سارا علاقہ ویران تھا ۔لھذہ کوئی آدم نظر آتا تھا نہ آدم زاد۔۔۔ فیروز صاحب اس نسوانی آواز کا تعاقب کرتے پیدل ہی، آگے ہی آگے بڑھتے جارہے تھے۔ آواز سے لگتا تھا کہ خاتون بہت زیادہ دکھی ہے۔ کیونکہ سسکیوں کی آواز بہت ہی زیادہ دردناک تھی ۔مگر سوال یہ تھا کہ وہ جنگل میں آکر کیوں رو رہی تھی۔۔۔؟ کیا گھر میں کوئی محترمہ کو یہ شغف پورا کرنے نہیں دیتا۔ مگر کیا معلوم وہ واقعی کوئی چھلاوہ ہو۔۔۔ وہ قریب پہنچیں تو وہ ایک بدصورت ڈائن میں تبدیل ہوجائے اور وہ بیچارے اس کے لئے ایک لقمہ ہی ثابت ہوں۔۔۔ تو کیا۔۔۔ انہوں نے یہاں آنے کی غلطی کر لی تھی؟؟ تو کیا لوٹ جائیں؟؟  نہیں ۔۔۔اب جب اوکھلی میں سر دے ہی دیا ہے تو موسلوں سے کیا ڈرنا ۔۔۔چل سو چل ۔۔۔سوچوں کے تانے بانے بنتے فیروز صاحب کے قدم زنجیر ہوئے۔ سامنے کا منظر دل دہلا دینے والا تھا۔

قسط نمبر 6 بہت جلد ان شا ٕ اللہ۔۔۔۔۔