سامنے چار پائی۔اردگرد سوگوار خواتین کا جمگھٹا۔ چارپائی پر بڑی چادر اور چادر میں لپٹا انسانی وجود۔۔۔ وقار کو لگا گھر کی چار دیواری چھت سمیت اس پر آگری تھی ۔ ہاتھ میں پکڑا آئسکریم کا پیکٹ کب کا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہو چکا تھا۔ دوڑ کر اس ”بدن نازنین“ تک پہنچا جواب بے جان تھا ۔بے روح تھا۔
”مما ۔۔۔مما اسپیک ٹو می پلیز۔۔ مما “وہ اس کے شانے ہلا رہا تھا ۔
”نہیں۔۔۔“ اس نے زیر لب کہا۔ دل جو کہہ رہا تھا اسے جھٹلاتے ہوئے اس نے ماں کو پکارا تھا ۔آنے والے وقت کے خوف سے اس کے حواس سلب ہو رہے تھے۔ اور پھر ستم بالائے ستم ڈاکٹر کا وہ انکشاف تھا جس نے اس کے قدموں تلے سے زمین کھسکا دی تھی ۔نیلوفر جہان چھوڑ چکی تھی ۔
”نہیں۔۔ جھوٹ۔۔ جھوٹ بول رہے ہیں ناں ڈاکٹر انکل۔۔ باباجان بتائیے نا۔۔ ڈاکٹر انکل یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ بابا جان بولیے نا “وہ بے جان سا ہو کر باپ کا شانہ ہلا رہا تھا ۔اور جب باپ کی جانب سے جواب نہ ملا تو ڈاکٹر کی سچائی کا یقین ہو گیا ۔اور پھر۔۔۔۔ آنسوؤں کے دھاروں کے سوا اس کے پاس کچھ نہ بچا تھا۔۔۔۔
***======================***
0 تبصرے