اگلی شام خاک کی امانت خاک کے سپرد کرکے دونوں باپ بیٹا گھر آگئے تھے ۔ہر کوئی بے حد غمگین اور ملول تھا۔ پڑوس کی خواتین نے اسے دم توڑتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ وہ منظر انہیں کبھی نہیں بھولے گا۔۔ یہ کہانی وہ وہاں موجود  ہر ایک کو سناچکی تھیں۔۔

”وقار کیا ہوا ہے ؟خالہ جان کو کیا ہوا ؟تائی مما کہاں چلی گئیں؟ سب یہاں کیوں اکٹھا ہیں؟ تم رو کیوں رہے ہو؟ تائی مما کو کہاں لے گئے؟ وہ کچھ بول کیوں نہیں رہی تھیں؟ ان کی آنکھیں کیوں بند تھیں؟تم رو کیوں رہے تھے؟ نیچے کیوں بیٹھے ہو ؟ سب تم سے پیار کیوں کر رہے تھے؟وقار بتاؤ نا۔۔۔“ پانچ سالہ معصوم فرح کو سوالات کے لیے وقار ہی ملا تھا۔ مگر وہ تو وہاں موجود ہی نہیں تھا ۔ اسے اس کے سوالات سنائی ہی نہیں دے رہے تھے۔

 وہ زمین پر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔ خاموش۔۔ گم سم۔۔ آج اس کے بالوں کا پف نجانے کہاں گیا تھا ۔شائد بالوں کے الجھاؤ اور بکھراؤ میں گم ہو گیا تھا ۔سرخ آنکھیں اور نم رخسار۔۔۔ دیکھ کرنرجس کا کلیجہ منہ کو آ گیا تھا یہ اس کا بھانجا بھی تھا بھتیجا بھی ۔اور سب سے بڑھ کر۔۔یہ اس کا بیٹا تھا۔ کتنے ہی سال اس نے اس کے ساتھ گزارے تھے ۔ حتی کہ جب خدا تعالیٰ نے اسے اپنی اولاد سے نواز دیا تھا تب بھی وقار کے لئے اس کی محبت کم نہیں ہوئی تھی۔فرح  کو جب اس کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا تو اکتا کر چلی گئی تھی۔ 

”ہائے معصوم بچہ۔۔۔ کیا بنے گا اس کا؟“

”بیچاری۔۔۔اتنی سی عمر لکھوا کر لائی تھی“

”آہ۔۔۔جوانی ہی میں چلی گئی“

”بہت نازوں سے پالا تھا اس نے اپنے لخت جگر کو“

”اب کیا فیروز صاحب دوسری شادی کریں گے؟“

”ایسا ہونا تو نہیں چاہیے۔۔۔ ننھا سا بچہ سوتیلی ماں کی معمولی سی سخت نگاہ برداشت نہیں کر پائے گا ۔۔اور وہ تو معلوم نہیں کیا کیا ظلم ڈھاتی ہیں “

”ہاں اورتو اور۔۔ساتھ میں مرد بھی سوتیلا ہو جاتا ہے۔ بیوی کے ہاتھ میں جال میں کچھ ایسا پھنستا ہے کہ سگی  اولاد کو ٹھوکر مار دیتا ہے“

”اف معصوم پر یہ کیسا وقت آگیا ہے!“ نیلوفر کا سوئم تھا اور خواتین آپس میں باتیں کر رہی تھیں۔