” آپ پریشان نہ ہوں بھائی جان ، صبر کریں پروردگار بڑا بے نیاز ہے۔ یہ امانت اسی کی تھی۔ اس نے واپس لے لی ۔آپ اپنے بیٹے کا خیال رکھیں.
فیروز صاحب دیوار سے چپکے بیٹھے اپنے نورِ نظر کو ترحم نگاہوں سے دیکھ رہے تھے جب پرویز صاحب بھائی کو تسلی دینے آ گئے تھے۔
” سب ختم ہو گیا پرویز۔۔ میری تو زندگی۔۔۔“
” زندگی ختم نہیں ہوئی بھائی جان۔۔۔ادھر دیکھئے اس کی طرف۔۔۔“ انھوں نے دیوار کے ساتھ لگے بیٹھے وقار کی جانب اشارہ کیا۔
” اگر پورا ایک ہفتہ اسے نہ اٹھایا تو یہ خود نہیں اٹھے گا ۔ سنبھالیے اسے بھائی جان۔ خود کو بھی سنبھالیے، اپنے لخت جگر کو بھی تھا مئے“ فیروز صاحب آگے بڑھے۔ دیوار سے صاحبزادے کو اٹھایا ۔سینے سے لگایا ۔اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ پرویزصاحب انہیں بے بسی سے دیکھ رہے تھے۔
***====================***
”اے پاک پروردگار تو مجھ سے راضی ہو جا۔۔ مجھے اور میرے بابا کو صبر عطا فرما۔ مجھے میری مما کو بھولنے میں میری مدد فرما۔ میرے اللہ میری مدد فرما ۔۔“بارگاہ لم یزل میں اٹھے وہ ننھے ننھے ہاتھ اور پھر اس پر ایسی مناجات۔۔۔ فیروز صاحب تڑپ اٹھے تھے۔ دوڑ کر بیٹے کو سینے سے لگایا تھا ۔
”نا بابا جان ۔۔۔ پلیز مت روئیے بس بہت رو لیا آپ نے اور میں نے۔ اب اور نہیں۔۔“ اس نے ان کے آنسو صاف کیے۔ اس کا ضبط انہیں حیران کر گیا تھا ۔کل تک یہ بچہ بحر غم دکھتا تھا اور آج نیا دن چڑھنے پر اس میں اتنا صبر کیسے آیا تھا۔ یہ بات انہیں ورطہ حیرت میں ڈال رہی تھی۔ وہ مسجد سے فجر پڑھ کر آ رہے تھے۔ اسے انہوں نے نہیں اٹھایا تھا۔ رات وہ بڑی دیر سے سویا تھا ۔فجر قضا ہونے سے قبل اس نے اٹھ کر گھر میں نماز پڑھ لی تھی۔
0 تبصرے