پلیز بابا۔۔۔بس کیجئے نا اب“
”سب میری غلطی ہے وقار۔۔ میری وجہ سے تمہاری ماں۔۔۔“
” بابا جان۔۔۔!“ تڑپ کر اس نے ان کے لبوں پر انگلی رکھی تھی ۔
”نہیں بابا جان، آپ خود کو قصور وار کیوں ٹھہرا رہے ہیں؟“ ان کا اشارہ وہ سمجھ چکا تھا ۔
”کتنا کہا تھا تونے کہ مما کو ہسپتال لے جائیے۔۔۔ میں نہ لیجا سکا۔ میری وجہ سے تمہاری ماں ہمیں چھوڑ کر چلی گئی وقار۔۔“
”بابا پلیز۔۔۔“ تنہائی تو تنہائی، تنہائی کا احساس بھی انسان کو اندر ہی اندر ختم کر دیتا ہے۔ ابھی چار دن ہی تو ہوئے تھے شریک حیات کو بچھڑے ہوئے ۔ اور وہ اندر سے بکھر گئے تھے۔ کچھ احساسِ جرم نے انہیں مزید لاغر کر دیا تھا۔ نیلوفر کا بےجان وجود دیکھنے سے لیکر اب تک وہ اس احساس جرم کے شعلوں میں جل رہے تھے ۔
”بابا جان پلیز خود کو قصور وار ٹھہرانا بند کیجئے ۔اس میں آپ کی غلطی نہیں تھی۔ ارادہِ خداوندی یہی تھا۔ ہم میں جدائی ڈلنا ہی تھی“
” میرا بیٹا تو اپنے باپ کو معاف کر دے۔۔ میں تیری ماں کی روح سے بھی شرمندہ ہوں“ انہوں نے روتے ہوئے اس کے آگے ہاتھ جوڑے تھے ۔
”نہیں بابا جان۔۔۔“ تڑپ کر اس نے ان کے ہاتھ تھامے تھے۔
” پلیز بابا۔۔ اگر آپ مجھے خوش دیکھنا چاہتے ہیں تو مجھ سے ایک وعدہ کیجئے“ فیروز صاحب نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔
”کہ دوبارہ آپ مما کی بیماری اور ہسپتال نہ لیجا سکنے کی بات نہیں کریں گے۔ اور نہ ہی ایسا کچھ سوچیں گے“ انہوں نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔
”وعدہ کیجئے بابا۔۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں خوش رہوں“ انہوں نے لپک کر اسے سینے سے لگایا تھا۔ بے اختیار دس بارہ بوسے لئے تھے۔
” وعدہ کیجئے بابا “
”وعدہ رہا میرے بیٹے۔۔۔۔ وعدہ رہا “وہ ان کے سینے سے لگا بہت مطمئن تھا۔ باپ کا سایہ بھی ٹھنڈی چھایاتھی۔ یہ سایہ کبھی نہ اٹھے۔ بے اختیار اس کے دل سے دعا اٹھی تھی۔ باپ بڑی نعمت ہوتا ہے۔
****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔****
0 تبصرے