”اسلام علیکم بھائی جان“ پرویز صاحب نے داخل خانہ ہوتے ہی سلام کیا۔
” وعلیکم السلام۔۔۔“فیروز صاحب نے جواب تو پرویز صاحب کو دیا تھا مگر جب نگاہیں اٹھائیں تو اپنے تمام بہن بھائیوں کو مسکراتے ہوئے سر پہ کھڑا دیکھ کر انہیں خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔
”ارے آپ لوگ۔۔۔ آؤ بیٹھو “انہوں نے ریمورٹ سے ٹی وی آف کیا ۔
”کیا بات ہے بھائی جان ۔۔۔نیوز دیکھی جارہی ہیں“ پرویز صاحب سے چھوٹی فریحہ بتول نے مسکرا کر پوچھا۔
”ہاں۔۔ نہیں۔۔ وہ۔۔“ انہوں نے ادھر ادھر دیکھا۔ وہ سب اک دوجے کو دیکھ کر مسکرائے ۔فیروز صاحب کو ان کی آمد بہت زیادہ مشکوک لگی تھی۔ تمام بھائیوں کے ساتھ بہنوں کا اپنا سسرال چھوڑا کر چلے آنا ، وہ بھی ایک ساتھ اکٹھے ہوکر ۔۔کوئی عام بات نہ تھی۔ ضرور کوئی سوچا سمجھا مقصد تھا ۔کافی حد تک سمجھ تو وہ گئے ہی تھے مگر بہرحال ان کا خیال غلط بھی ہوسکتا تھا۔
”نہیں نہیں بھائی جان اٹس اوکے۔۔۔ نیوز دیکھنے میں کیا غلط ہے؟“فریحہ سے چھوٹی مائدہ بتول نے بھی مسکرا کر کہا تھا۔
” تم لوگ کیا میرا میٹر شارٹ کرنے آئے ہو “انہوں نے تپ کر کہا تھا۔
”انہیں چھوڑیں بھائی۔۔ یہ بتائیے وقار کیسا ہے؟ پرویز صاحب نے سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے پوچھا تھا ۔
”ہاں وہ بالکل ٹھیک ہے۔ الحمدللہ آج پہلے دن سکول بھی گیا تھا ۔آپ سب اس کی فکر نہ کریں “
”فکر تو ہوگی بھائی۔ چھوٹا بچہ ہے اور اوپر سے گہرا صدمہ“ مائدہ سے چھوٹی وردہ بتول نے فکر مندی سے کہا۔
”نہ وہ چھوٹا بچہ ہے ، اور نہ ہی اسے کوئی صدمہ ودمہ ہے ۔وہ مجھ سے زیادہ پرسکون ہے“
” بھائی پرسکون ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اوپر سے پرسکون ہے نا۔۔ اندر کھول کر کس نے دیکھا ہے“ سب سے چھوٹے محمد علی نے بھی ہمدردی سے کہا ۔
”آپ سب لوگ جمع خاطر رکھیے ۔جس مالک نے اِک جان کو واپس بلا لیا ہے۔ اس مالک نے اس کے وارثوں کو صبر بھی عطا کیا ہے “
0 تبصرے