”بھائی آپ بس ہاں کیجیے ۔۔۔لڑکی ڈھونڈنا ہمارا کام ہے“ فریحہ نے بھی ہمت کی۔ 

”تم لوگ میرے معیار کے مطابق کوئی لڑکی لے آؤ۔۔۔ حالانکہ نا ممکن ہے، مگر پھر بھی۔۔۔ کوشش کر کے دیکھ لو۔۔۔ تب آنا میرے پاس“ جان چھڑانے کے لئے فیروز صاحب نے بظاہر ہار مان لی تھی۔

 ”دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں بھائی“ محمد علی نے ہنس کر کہا تھا۔اور یہ ہنس کر کہا جانے والا سادہ سا اور عام سا جملہ اس غریب کو مہنگا پڑگیا تھا۔

” اچھا یہ بات ہے۔۔۔“ فیروز صاحب نے کھڑکی کھولی۔ ان کے چھ بہن بھاٸی دلچسپی سے ان کے اگلے فقرے کا انتظار کر رہے تھے۔

” دن ہے نا۔۔۔؟“ انھوں نے باری باری سب کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

”جی۔۔۔“ 

چلو۔۔۔اس دن کو تم لوگ رات کر کے دکھاؤ اگر کچھ بھی ناممکن نہیں تو“ انہوں نے کھڑکی کی طرف اشارہ کیا۔ سب کے منہ کھل گئے تھے۔

” بھائی آپ اپنے معیار کی لڑکی میں موجود کوالیٹیز لکھواٸیں“ خفت کو کم کرنے کے لٸے عون نے ان کے بک شیلف سے نوٹ پیڈ نکال کر ہنستے ہوٸے کہا۔

”تو پھر لکھو ۔۔۔“انہوں نے آستینیں چڑھائیں۔

” جی جی۔۔۔۔“عون نے خوش خط جلی حروف سے لکھا ۔ ”ہونے والی بھابھی کے مطلوبہ فضاٸل۔۔۔۔“ فیروز صاحب نے پرغیض نگاہ ان پر ڈالی۔ وہ کھسیانا سا مسکرائے۔

” اصل میں یہ مناسب نہیں تھا کہ میں لکھتا فیروز صاحب کے لیے ڈھونڈی جانے والی لڑکی میں پائی جانے والے خصاٸل کی لسٹ بنا رہے ہیں ہم ۔۔۔۔۔۔ یہ تھوڑی لمبی ہیڈنگ نہیں ہو جانی تھی؟“ انہوں نے ڈھٹائی سے بھائی کو دیکھا۔ ”نہیں نہیں۔۔۔ ابھی لسی گاڑھی ہے مدھانی ڈالو اور اور بڑھا لو اسے، گپ ستان کے شہزادے۔۔۔“ انھوں نے دانت پیسے۔