”آپ کو تو صبر آ ہی جانا تھا بھائی ۔مگر وقار تو ابھی بہت چھوٹا ہے۔ اسے کیا معلوم صبر کسے کہتے ہیں“ یہ محمد علی سے بڑا عون علی تھا۔

” وقار تو ماشاء اللہ مجھ سے بھی زیادہ صابر بچہ ہے۔ عون ، اس نے خود کو بہت اچھے سے سنبھال لیا ہے“ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کو اپنی بات کیسے سمجھائیں جو کسی صورت مان کے ہی نہیں دے رہے تھے۔ 

” غلط فہمی ہے آپ کی بھائی ۔ وہ ہرگز سنبھل نہیں سکتا جب تک کہ اسے ہر طرف سے سہارا نہیں ملے گا ۔۔ ہم بڑے کس لیے ہیں“ پرویز صاحب نے کہا۔

”“اسے سہارا دینے کے لیے میں ہوں ناں۔۔

 ”مگر کب تک۔۔۔ نرجس بھی چند دن تک رہ پائی آپ کے پاس۔۔اس کی بھی زندگی ہے بچے ہیں فیملی ہے۔ آپ کو بھی آج یا کل فیکٹری ری جوائن کرنا ہی ہے ۔پھر۔۔۔؟“ فریحہ نے دوبارہ حصہ لیا۔ فیروز صاحب کا شک یقین میں بدل گیا تھا۔ وہ بالکل صحیح سمجھے تھے۔ان کے بہن بھائی یونہی نہیں آئے تھے۔ یکایک ان کا موڈ بگڑ گیا تھا۔

”وہ بالکل ٹھیک ہے۔ان فیکٹ۔۔۔ مجھ سے زیادہ تیز عقل کام کرتی ہے اس کی۔ پوری سمجھ رکھتا ہے وہ۔ تمام باتیں سمجھتا ہے۔۔۔ آپ لوگ اس کے لئے فکر مند ہیں، اس کے لئے میں آپ کا ممنون ہوں۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ اسے کسی بھی سہارے کی ضرورت” نہیں“  ہے“ فیروز صاحب کا بگڑا ہوا موڈ دیکھ کر تمام بہن بھائیوں نے تمہید کو بلائے طاق رکھتے ہوئے سیدھے مدعے پر آنے کا فیصلہ کیا۔ 

”سہارے کی نہیں تو تربیت کی ضرورت تو ہے نا۔۔؟“ وردہ نے آہستگی سے کہا ۔ 

”اس کی ماں نے اس کی تربیت میں کمی نہیں چھوڑی تھی“ ان کے ابرو ابھی بھی  بھنچے ہوئے تھے۔

” کسی کی تربیت کبھی مکمل نہیں ہوتی بھائی۔۔ انسان ساری زندگی سیکھتا ہے“ مائدہ نے وردہ کا ساتھ دیا ۔

”اسے کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں مائدہ۔۔۔ اگر ہو بھی، تو میں تو ہوں ہی اس کے پاس۔۔اس کا باپ “ ان کے بہن بھائیوں نے ان کے لہجے میں سرد پن غالب آتے دیکھا تھا ۔

”آپ کے ساتھ ساتھ اسے ماں کی ضرورت بھی ہے بھائی “عون علی نے کہا۔ 

”ہے تو سہی۔۔ مگر کیا کیا جائے ۔ وہ ذات بڑی بے نیاز ہے۔ اس نے لے لی اس کی ماں۔ اب کیا کر سکتے ہیں“انہوں نے کندھے اچکائے۔

”آپ شادی کرلیں بھائی“ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی بے تکی باتوں سے تنگ آکر اور نتیجے سے بے پرواہ ہوکر پرویز صاحب نے اپنے آنے کا مقصد واضح کر دیا تھا ۔ فیروز صاحب نے بے یقینی سے چھوٹے بھائی کو دیکھا۔