سامنے ایک بڑا سا کنواں تھا۔ اتنا بڑا کہ اس کی منڈیر پر سو آدمی بیٹھ جائیں ۔اور یقینا گہرا بھی اتنا ہی تھا۔ اس کی منڈیر زمین سے تقریبا ڈھائی تین فٹ بلند تھی ۔  ایک سیاہ چادر والی خاتون منڈیر پر دونوں پاؤں پھیلائے بیٹھی تھی ۔ گویا موت کا انتظار کر رہی ہو۔ ایک ہوا کا خفیف سا جھونکا آئے تو اس کی خیمے جتنی چادر سمیت وہ کنویں میں جا گرے۔

” کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں“ پوری ہمت مجتمع کر کے انہوں نے سوال کیا تھا ۔وہ اس کی پشت کی جانب کھڑے تھے اور نگاہیں جھکی ہوئی تھیں ۔حالانکہ سامنے بھی چلے جاتے تو اس کا چہرہ دکھائی نہیں دے سکتا تھا۔کیونکہ اس نے خود کو خوب ڈھکا ہوا تھا ۔

”جج۔۔۔ جی۔۔۔ آپ !“ایک اجنبی مرد کو یوں اتنا قریب دیکھ کر وہ بری طرح گھبرا گئی تھی ۔ رونا بھول کر وہ اپنی سیٹ کی ہوئی چادر کو اپنے بدن پر مذید پھیلا رہی تھی۔

” دیکھئے اگر آپ کو مدد کی ضرورت ہے تو۔۔۔۔“

” آپ جو کوئی بھی ہیں ۔۔یہاں سے چلے جائیں“ اس کی آواز میں واضح ارتعاش کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔ کثرت گریہ کی وجہ سے بھی آواز ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ فیروز صاحب حیرت سے پلکیں جھپکنے لگے۔ 

اتنے گہرے کنویں پر وہ ٹانگیں دراز کیے یوں بیٹھی تھی جیسے کوئی اپنے آرام دہ پلنگ پر اپنی پسندیدہ کتاب لے کر بیٹھتا ہے۔ مگر وہ تو اپنے پسندیدہ شغف سے مستفید ہو رہی تھی۔

”دیکھیے آپ مجھ سے نہ گھبرائیں ۔کسی بھی مدد کی ضرورت ہے تو آپ بلا جھجک مجھے کہہ سکتی ہیں۔ میں ہر طرح سے حاضر ہوں“ انہوں نے حوصلہ آمیز انداز اپنایا تھا ۔

”دیکھئے  میں سید زادی ہوں۔۔۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ آپ یہاں سے چلے جائیں“ اس نے سیاہ جلسی کی چادر کو مضبوطی سے مٹھی میں کسا۔

”پھر تو گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ سیدزادہ میں بھی ہوں۔ شریف گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اور الحمدللہ مسلمان بھی ہوں۔ آپ بلا جھجک مجھ سے اپنا مسئلہ ڈسکس کر سکتی ہیں“ انہوں نے نگاہیں تھوڑی سی اٹھائیں۔ اس کی چادر پوش پشت نظر آئی۔ انہوں نے پھر سر جھکا یا۔ دوسری جانب مکمل خاموشی تھی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی۔

” میں آفس سے آ رہا تھا ۔آپ کی آواز سنائی دی۔ پہلے تو میں خوفزدہ ہوگیا ۔مگر پھر ہمت کرکے اندر داخل ہو گیا۔مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں نے جنگل میں قدم رکھ کر  ٹھیک کیا یا نہیں۔مگر پھر میں نے سوچا اگر آپ کوئی چھلاوہ ہوتیں تو۔۔۔۔“ مگر وہ ان کا جنگل نامہ نہیں سن رہی تھی۔ 

وہ تو ان کے ابتدائی الفاظ سن کر سکتے میں آگئی تھی اتنی باپردہ عورت مر جاتی بہتر تھا۔ بجائے اس کے کہ کوئی اجنبی مرد اس کی آواز سن کر جنگل میں چلا آتا۔لاکھ کرب میں سہی۔۔۔ مگر ایسی بھی کیا آخر آ گئی تھی کہ بے خود ہو کر یوں گریہ کناں ہوئی کہ آس پاس کا ہوش بھی نہ رہا ۔ایک نا محرم اس کی آواز سن کر کھنچا چلا آیا تھا۔وہ خود کو کوسنے لگی تھی۔ یہ تو پھر بھی شریف لگ رہا تھا۔ اگر کوئی غنڈہ وغیرہ ادھر کا رخ کر لیتا تو۔۔۔! اس سے آگے وہ سوچ نا سکی تھی ۔فیروز صاحب کی آواز اسے واپس حواسوں میں لائی تھی۔

” مجھے محسوس ہوا تھا کہ آپ ایک دکھی خاتون ہیں ،  جسے مدد کی ضرورت ہے۔ آپ بے فکر ہو جائیں اور اپنی تکلیف مجھ سے شیئر کریں کیونکہ اب اگر میں آ ہی گیا ہوں تو انسانیت کے  ناتے آپ کو روتا بلکتا نہیں چھوڑ سکتا ۔۔یہ بات تو طے ہے“ وہ بدستور یونہی بیٹھی تھی۔اس میں ذرا برابر بھی جنبش نہ ہوئی تھی۔