KERA ep#6 pg 11

 



”آپ ہی نے مجھے بتایا تھا کہ یہ آپ پر ظلم کرتی تھیں۔ تو پھر اب انھیں سر پر کیوں بٹھانا چاہتی ہیں آپ؟“

” جو بھی ہے فیروز صاحب ۔ ہیں تو میری بہنیں ہی۔ ۔ ۔ اور پھر، میری طرح وہ بھی صبح سے بھوکی پیاسی اس جنگل میں بھٹک رہی ہیں۔ جو مصیبت ان کے سر پر آئی ہے، ہوسکتا ہے وہ سدھر گئی ہوں“

”ہونہہ بہنیں۔۔۔! اور کیا کہا مصیبت؟ حلیہ تو دیکھو ان کا۔۔ یوں پورے جنگل میں ٹہل رہی ہیں گویا اپنے گھر کے لان میں ہوں“ نیلم ان کی بڑبڑاہٹ سن تو نہ سکی تھی ۔البتہ چہرے کے انداز سے سمجھ گئی تھی کہ ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔ لیکن اس معاملے میں تو وہ بالکل بے بس تھی۔ وہ غیر سید والدین کی اولاد تھیں اور پیچھے سے ان کا گھرانہ ایسا ہی تھا۔ فیشن ایبل، ایڈوانسڈ،  بولڈ فیروز صاحب کی آواز اسے سوچوں کے چنگل سے چھڑا کر واپس جنگل میں لائی تھی۔


”نیلم میں نہیں چاہتا کہ آپ جلد بازی میں کوئی ایسا فیصلہ کر بیٹھیں جس کو کرنے کے بعد آپ کو پچھتانا پڑے۔ اس لئے گہری سانس لیں اور پھر سکون سے سوچیں۔ کوئی بات نہیں اب لیٹ ہوگئے سو ہوگئے آپ اپنے مائنڈ کو فریش کریں اور اچھے سے سوچیں“

” میں نے ٹھنڈے دماغ سے سوچ کر ہی کہاہے فیروز صاحب۔۔۔ جیسے آپ مجھے یہاں اس خوفناک جنگل میں تنہا نہیں چھوڑ سکتے تھے، ویسے میں انہیں یہاں نہیں چھوڑ سکتی۔ مر جائیں گی یہ یہاں۔ ظاہر نہیں کرتیں۔ لیکن یہ بھی میری طرح بہت خوفزدہ ہیں۔ بھوکی ہیں صبح سے “

” کوئی بھوکی نہیں ہیں کھالیے ہوں گے اس جنگل سے۔۔۔ کیڑے مکوڑے وغیرہ“ آخری الفاظ پھر سے بڑبڑا ہٹ میں ادا کیے تھے۔

” جی ۔۔۔؟“

”دیکھئے نیلم ، ایسا نہیں ہے کہ میں تنگ دلی کی وجہ سے انہیں ساتھ لے جانے سے انکاری ہوں۔

بلکہ اس لیے کہ آپ کو رکھنے کا ٹھوس جواز ہے میرے پاس۔ مگر ان کے بارے میں کیا جواز پیش کروں گا میں؟“ 

”میرے بارے میں کیا جواز ہے آپ کے پاس؟“ اس کا دل یکبار ہی دھڑکا تھا۔ مگر اگلے ہی لمحے دل کو قابو کر کے اور ڈپٹ کر سینے کے کسی اندھیرے کونے میں پھینک دیا تھا۔

” دیکھئے نیلم ، میں یہ بات اتنی جلدی کہنا تو نہیں چاہتا تھا ۔اس خوف سے کہ کہیں آپ ناراض نہ ہو جائیں “اس نے حیرت سے انہیں دیکھا تھا۔ وہ بے حد تجسس کے ساتھ ان کے بولنے کی شدید منتظر تھی۔ اگر کوئی خوش فہمی سراٹھاتی بھی تھی تو یہ سوچ کر کہ کوئی اور بات بھی ہو سکتی ہے، اس خوش فہمی کو کچل کر خود کو پر سکون کر لیتی۔

” جب سے میری وائف کا اتقال ہوا ہے، میرا بیٹا بہت چپ چپ اور اداس سا ہو گیا ہے۔ میرے بھائی بہن مجھے شادی کرنے پر اصرار کر رہے ہیں۔لیکن میں جان بوجھ کر ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی کے پرپوزلز ٹھکرا رہا ہوں۔ کیونکہ مجھے اپنے بیٹے کے سر پر سوتیلی ماں نہیں تھوپنی ہے “انہوں نے توقف کیا۔

” مگر آپ کو دیکھ کر، نہ جانے کیوں، مجھے اس بات کا یقین تھا کہ آپ ایسی ہر گز نہیں ہیں۔ دو ماہ سے لے کر اب تک۔۔۔ عورت ذات کے بارے میں سوچا تک نہیں تھا میں نے۔ مگر آپ کو دیکھ کر نیلم۔۔۔ میں نے آپ کو اپنے نکاح میں لینے کا فیصلہ کیا ہے“ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے