KERA Ep#6 pg 12




 وہ بولتے چلے گئے تھے۔ وہ بنا پلک جھپکے سنتی چلی گئی تھی ۔آخری جملے پر اس نے بے یقینی سے انہیں دیکھا تھا۔ اسے اپنے کانوں پر شک ہوا تھا ۔

”میں نے فیصلہ تو کر لیا نیلم ،لیکن بحرحال آپ بندھی ہوئی نہیں ہیں۔ آزاد رائے کا حق رکھتی ہیں ۔لیکن ایک بات میں آپ کو بتا دوں“انھوں نے ایک بار پھر توقف کیا۔ وہ بنا سانس روکے سن رہی تھی۔

” آپ سے اچھی بیوی مجھے ،اور آپ سے اچھی ماں میرے بیٹے کو ۔۔۔کہیں نہیں ملے گی۔ مگر آپ پھر بھی سوچ لیجئے گا نیلم اس بارے میں“ اپنی بات کہنے کے بعد وہ خاموش ہوئے۔  نیلم کی سسکی سن کر حیران ہوئے۔ اور اس سے بھی زیادہ پریشان ۔۔۔

”آئی ایم رئیلی ویری سوری۔۔۔ اگر انجانے میں کچھ غلط کہہ دیا ہو تو۔ میں آپ کا دل۔۔۔“

” نہیں فیروز صاحب!“ اس نے روتے ہوئے ان کی بات کاٹی تھی۔

” میں تو اس لئے رو رہی ہوں کہ میں۔۔۔ مطلب۔۔۔ مجھ سے خوش قسمت عورت کون ہو سکتی ہے۔ جسے خدا نے موت سے بچانے کا بندوبست کیا ۔اپنا وسیلہ بھیجا۔ اور پھر۔۔۔اور پھر اس وسیلے کو۔۔۔اس فرشتے کو۔۔۔  میرا مستقل محافظ بنا دیا!!  فیروز صاحب میں کہنا چاہتی ہوں کہ۔۔۔ آپ سا شوہر مجھے چراغ لے کر ڈھونڈنے پر نہ ملے گا۔ سچی محبت کا دعوی تو سب کرتے ہیں۔ اور ممکن ہے کرتے بھی ہوں۔۔۔ مگر جو عزت آج آپ نے مجھے دی ہے ۔وہ۔۔۔ وہ آج کل تو کوئی نہیں دیتا ۔ میں خود کو ہمیشہ کے لئے آپ کو سونپتی ہوں فیروز صاحب۔۔۔ وعدہ کرتی ہوں، کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گی“ وہ روتے ہوئے بولتی چلی جارہی تھی۔ وہ مسکرا کر اسے دیکھتے چلے گئے۔ وہ رو رہی تھی۔ آنکھوں میں آنسو تھے۔ خوشی کے آنسو۔۔۔ شکرگذاری کے آنسو۔۔۔ کسی اپنے کے ہونے کے مان پر رو رہی تھی وہ۔ موت کو منھ چڑھا کر اس کے بھنور میں سے کامیابی سے باہر نکلنے کے خوشگوار احساس کو محسوس کرکے رو رہی تھی۔

” ہو گیا۔۔۔؟ اب چلیں اگر اجازت ہو تو؟“ وہ نم آنکھوں سے مسکرائی۔ جب وہ واپس آئے تو نیلم کی بہنیں جنگل کی سیر کر رہی تھیں۔ فیروز صاحب کو نیلم کے اقرار کی اتنی خوشی تھی کہ انھیں ساتھ لے جانے کے لیے راضی ہو گئے تھے ۔

”مگر میری ایک بات یاد رکھنا نیلم“ انہوں نے ساتھ ہی متنبہ بھی کیا تھا۔

”اگریہ زندگی میں کبھی کوئی اونچ نیچ کرتی ہیں تو مجھے نہ کہیے گا  ۔ اپنی ذمہ داری پر لے کر جائیے گا انھیں۔اور یہ بات بھی یاد رکھئے گا کہ یہ فیصلہ سوفیصد آپ کا تھا اور میرا اس میں 0.1 فیصد حصہ بھی نہیں ۔سمجھ رہی ہیں نا آپ؟“

” جی فیروز صاحب ،  میں کچھ نہیں کہوں گی“ خوشی میں اس نے یقین دلایا تھا اور اب یہ پانچوں جنگل سے باہر نکل آئے تھے۔آسمان پر مکمل تاریکی تھی۔ البتہ چاند خوب چمک رہا تھا۔جس کی وجہ سے انھیں راسے یا جنگل میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ویسے بھی یہ جنگل کے زیادہ اندرونی حصے میں نہیں تھے۔ فیروز صاحب آگے آگے چل رہے تھے اور وہ چاروں پیچھے پیچھے۔

”اتنی دیر لگادی تنہا گوشے میں۔۔۔ کیا باتیں ہو رہی تھیں دونوں کے درمیان؟“ روبینہ نے چبھتا تیر پھینکا تھا۔ فیروز صاحب چلتے چلتے رکے۔ روبینہ کے دل میں ان کا رعب بیٹھ چکا تھا۔ گو وہ مڑے نہیں تھے مگر ان کی یہ حرکت اس پر حاوی ہوتی دکھائی دی تھی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے