KERA ep#6 pg 14




”مم۔۔۔میری آنٹی کی بیٹی تھی وہ “ بوکھلاہٹ میں جو سوجھا سو بول گئے۔نیلم کھل کے ہنسی۔ 

شاید ایک مرد کا تحفظ تھا یا اس پر بھروسہ۔۔۔۔ روبینہ کے سخت تیورات پر وہ ڈری تھی نا سہمی تھی۔اور وہ اس کی دلیری پر ایک بار پھر حیرت کا شکار تھی۔

”مجھے بہت فکر ہو رہی ہے اس کی۔ آپ کو بتانا چاہیے تھا کہ وہ اتنا چھوٹا ہے۔ یا مولا ۔ ۔ ۔ ڈر گیا ہو گا۔ بھوکا ہو گا۔ کیا بیت رہی ہوگی اس پر۔ ۔ ۔“

”نیلم ریلیکس۔ ۔ ۔“مڑے اور رکے بغیر ہنس کر انھوں نے اسے ٹوکا تھا۔

” نہ ڈرتا ہے اور نہ بھوکا رہتا ہے۔ دونوں کا سدباب کرنا آتا ہے اسے۔آپ پریشان نا ہوں“   

”کیا ہوا اس کی ماں کو ؟کیا مرگئی؟ “روبینا نے اپنی بھاری آواز میں پوچھا تھا۔

”اوہ۔۔ پورلٹل بےبی“ نگینہ نے اپنی باریک آواز میں چہ چہ کیا۔

” کیا ہوا تھا آپ کی وائف کو؟“ نیلم نے سوال دہرایا ۔

”اسے ہارٹ اٹیک ہوا تھا“ درد کی لہر ان کے سینے میں رینگ گئی تھی ۔احساس جرم نے اب تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔نیلم پیچھے ہونے کی وجہ سے دیکھ تو نہ پائی تھی، البتہ ان کی آواز میں درد محسوس کیا تھا اس نے۔

” تو کیا اب شادی کرنے کا ارادہ ہے تمہارا“ روبینہ نے پوچھا تھا۔

” جی“ انہوں نے مختصر جواب دیا تھا ۔

”یہ تو بہت اچھا سوچا تم نے ۔ میں ڈھونڈ دوں گی تمہارے لیے لڑکی“

” ضرورت نہیں ہے۔۔۔ مجھے لڑکی مل گئی ہے۔ پیشکش کے لئے شکریہ “ 

نیلم کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر وہ پھر سے حیران ہوئی تھی۔ آخر اسے کیا ہوگیا تھا۔ یہ اتنی دلیر کیسے ہو گئی تھی۔ جس کے سامنے نظر اٹھاتے بھی کانپ جاتی تھی آج دھڑلے سے اسی کے سامنےکھلکھلا  کر ہنستی ہے، تو کبھی مسکرا دیتی ہے۔ اور کبھی تو بولتی بھی ہے ۔ ۔ ۔

”تو کیا کرتا ہے آپ کا بیٹا؟“ نیلم نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔ اپنے محسن سے جڑی ہر چیز اسے پیاری لگنے لگی تھی۔ اور یہ تو پھر اس کا جیتا جاگتا بیٹا تھا ۔

”وہ پڑھتا ہے۔ جماعت سوم کے فائنل ایگزامز میں آجکل بزی رہتا ہے“

” کیا کہا جماعت سوئم۔۔۔؟“ وہ حیران ہوئی تھی۔

” سات سال کا بچہ اور جماعت سوئم؟“

”جی ہاں۔ بہت ذہین و فطین بچہ ہے۔ ماشاءاللہ اس کی ماں نے اس کی تعلیم و تربیت دونوں ہی خود کی ہیں۔ سمجھ بوجھ ایسی رکھتا ہے کہ عقل والے دانتوں تلے انگلی دبا لیں“ وہ ہنسے تھے۔ 

راستہ چاہے کتنا ہی لمبا اور دشوار کیوں نہ ہو۔ اگر ہم سفر اچھا ہو تو سفر بہت مزے سے کٹتا ہے۔ اپنے نورِ نظر کی تعریفوں کے پل باندھتے کب ان کا گھر آ گیا تھا ۔انہیں پتہ ہی نہیں چلا تھا۔

” اب تو مجھے اس سے ملنے کا بے حد اشتیاق ہو چلا ہے “اس کے لہجے میں بے چینی واضح ہورہی تھی۔ روبینا نے نگاہوں سے خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا ۔مگر وہاں پروا کسے تھی !

” ارے آپ اسے دیکھیں گی تو آپ کو اس سے سچ میں پیار ہو جائے گا“ وہ ہنستے ہوئے اپنی گلی مڑے۔

” مجھے تو سن کر ہی اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ کتنا پیارا ہوگا“

” جی ہاں ۔۔اور آپ کو اس کی ایک سپیشل بات بتاؤں؟“

” جی ضرور“ روبینہ نے اس بار اس کے بازو پر چٹکی کاٹی تھی۔ نیلم کراہ کر رہ گئی تھی ۔ البتہ فیروز صاحب کی آواز میں اس کی ہلکی سی کراہ دب گئی تھی ۔

”وہ پیشن گوئی کرتا ہے“

” کیا کہا پیشنگوئی؟؟؟“ چاروں کے منہ سے یکدم نکلا ۔گھر آچکا تھا ۔ انہیں وضاحت کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔

انھوں نے دروازے کو ہاتھ لگایا تو وہ کھلتا ہی چلا گیا۔

                ****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔****

”اوہ گاڈ۔۔۔ میرا بیٹا لاپروا کب سے ہو گیا ہے۔ اتنی رات گئے تک دروازہ کھلا!“

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے