KERA ep#6 pg 15




 چاروں نے اندر قدم رکھے پانچ منزلہ سنگل سٹوری گھر  تقریبا سارا روشن تھا ۔ عام سا گھر دیکھ کر ان کی آمدنی کا اندازہ لگانے میں ذرا بھی دقت نہ ہوئی تھی۔

” بابا جان۔۔۔!“ وہ دوڑتا ہوا ان سے چپک گیا تھا۔ انہوں نے اسے گود میں اٹھا کر بے اختیار کتنے ہی بو سے لے ڈالے تھے ۔

نیلم اسے دیکھ کر مسکرائی تھی۔ وہ فیروز صاحب کی باتوں کی آنکھوں سے اسے دیکھ چکی تھی۔ اس کا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔ وہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا اس نے اسے اپنے چشم تصور میں بنایا تھا۔ 

مگر جو چیز اس کے تصور میں نہ بن پائی تھی وہ تھیں اس کی آنکھیں۔۔۔۔ اس کی آنکھیں نیلی ہوں گی، اس بات کا اندازہ اسے بالکل بھی نہ تھا ۔ 

اسے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ فیروز صاحب کی آنکھیں بھی نیلی ہیں۔  نہ اس نے انھیں اتنے غور سے دیکھا تھا۔ انہوں نے تو خیر بڑی فرصت سے اس کا دیدار کر لیا تھا ۔

بابا جان اتنی دیر کہاں تھے آپ ؟جانتے ہیں کتنی فکر ہو رہی تھی آپ کی۔ نو بج چکے ہیں بابا“

”ہاں بابا کی جان۔ معاف کردو۔ دوبارہ نہیں ہوگا“ انہوں نے لاڈ سے اپنے کان پکڑے تھے۔ نیلم مسکرا کر اس پیارے سے بچے کو دیکھ رہی تھی۔ روبینہ سے اب مزید صبر کرنا محال ہو گیا تھا ۔اسے اشارے سے ایک جانب بلایا ۔

”مجھے ایک بات بتاؤ ۔ یہ کیا تماشا بنا رکھا تھا تم نے سارے رستے ؟مجھے اپنے بیٹے کے بارے میں بتائیے۔ مجھے اس سے ملنے کا اشتیاق ہے۔ یہ کہئے۔ وہ کہئے۔۔۔۔ اتنی بھی کیا فری نیس؟“

” آج کی تاریخ میں سب معلوم پڑ جائے گا باجی “مسکرا کر وہ واپس ان کے پیچھے جا کھڑ ی ہوئی تھی ۔ٹھیک ان کے پیچھے۔۔۔ روبینہ تو حیرت کے مارے بے ہوش ہونے کو ہو گئی تھی۔ وہ اس کی نامحرم مردوں سے انتہائی احتیاط کرنے والی عادت سے اچھی طرح واقف تھی ۔  پھر آج کیا ہوگیا تھا اسے ! کہیں۔۔۔۔ 

( تو کیا شادی کرنے کا ارادہ ہے تمہارا؟ میں ڈھونڈ دوں گی تمہارے لیے لڑکی ۔ ضرورت نہیں ہے۔ مجھے لڑکی مل گئی ہے۔  پیشکش کے لیے شکریہ ) تو کیا۔ ۔ ۔ وہ لڑکی۔ ۔ ۔

نیلم کی مسکراہٹ دیکھ کر ہی اسے سمجھ جانا چاہیے تھا ۔ مگر اس سے ہونا کیا تھا ۔ کتنی خوش قسمت تھی نیلم۔  یہ تو اس کے لئے بلیسنگ ان ڈسگائز (Blessing In Diguise) ثابت ہوا تھا۔

” یہ کون ہیں؟“ وقار نے ان کے کان میں سرگوشی کی۔ ان کے ساتھ چار خواتین کو دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا تھا۔ اُن تینوں کو دیکھ کر تو اسے بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا۔ اور نیلم ۔ ۔ ۔

نیلم کا اپنے تئیں مسکرا کر گھورے جانا اسے سخت کوفت میں مبتلا کر رہا تھا ۔ آج سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ شدید متجسس تھا کہ آخر یہ ہیں کون، اور بابا انہیں گھر کیوں لے آئے ہیں۔

” یہ ۔ ۔ ۔وقار بیٹا یہ تمہاری مما ہیں۔ سلام کرو “انہوں نے اسے نیچے چھوڑا ۔ وہ چلتا ہوا اس کے قریب آیا ۔نیلم نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔ روبینا نے سر تھام لیا تھا ۔ اس کی بہنوں پر گویا کوئی بم گرگیا تھا ۔

”مما۔۔۔“ وہ اسے سر تا پا گھور رہا تھا۔ گویا سرتاپاؤں جائزہ لے رہا ہو۔

” ماشاء اللہ میرے بیٹے ! آپ تو میری سوچ سے کہیں زیادہ پیارے ہو۔ آپ کے بابا نے زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے آپ کی تعریف میں۔ مگر نام نہیں بتایا تھا۔ یہ تو یہاں آکر معلوم پڑا کہ آپ کا نام وقار۔ ۔ ۔“

” یہ میری مما ہیں؟“ اس کے عجیب سے اندازِ استفسار پر وہ بولتے بولتے رکی۔ وضاحت طلب نظروں سے فیروز صاحب کو دیکھا۔ وہ خود حیران تھے۔

” بیٹا یہ آپ کی مما ہیں“

” نہیں ۔۔۔“اس نے انہیں درمیان میں ٹوکا ۔چہرے کے تاثرات حد سے زیادہ سخت ہو چکے تھے۔

” بابا یہ میری مما نہیں ہیں۔ آپ نے سوچ بھی کیسے لیا بابا۔۔۔ میری مما چلی گئیں۔ اب وہ کبھی واپس نہیں آئیں گی۔ کوئی میری مما کی جگہ نہیں لے سکتا۔۔۔ کوئی نہیں !“اس نے بلند لہجے میں کہا۔فیروز صاحب کی حیرت کی انتہا نہ رہی تھی۔


قسط نمبر 7 بہت جلد ان شا ٕ اللہ۔۔۔۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے