”محترمہ میں بھی سید گھرانے کا ہوں۔ سید فیروز نور علی رضوی میرا نام ہے۔۔ آپ کا اضطراب سمجھ سکتا ہوں۔ آپ مجھے نا محرم سمجھ رہی ہیں ۔آپ کی سمجھ بالکل بھی غلط نہیں ہے۔ بلاشبہ ہم دونوں ایک دوجے کے لیے نامحرم ہی ہیں۔ لیکن مدد کے لیے وسیلہ بھی تو ہوتا ہے نا۔۔ اتنے خوفناک جنگل میں کوئی عورت تو وسیلہ بن کر آنے سے رہی ۔ ۔شاید یہ قادر مطلق ذات نے میری قسمت میں لکھا تھا۔ اب پلیز آپ خود کو غیر محفوظ نہ سمجھیں ۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ مجھ سے بات کرکے آپ ہرگز نہیں پچھتائیں گی“انہوں نے ابھی بھی نگاہیں زمین پر گاڑھی ہوئی تھیں تاہم انہوں نے محسوس کیا تھا کہ وہ خاتون متحرک ہوئی تھی۔
”اگر آپ ابھی بھی گومگو میں ہیں تو آپ کو حضرت موسی اور دو خواتین کا کنویں والا واقعہ تو یاد ہی ہوگا۔ کیسے اللہ پاک نے نا صرف ان کی اپنے پیارے پیغمبر کے ذریعے مدد فرمائی بلکہ خود جناب موسی علیہ السلام کو بھی خوف اور بھوک و احتیاج سے نجات عطا فرمائی“ انھیں محسوس ہوا تھا کہ خاتون نے پاؤں نیچے لٹکا لیے ہیں۔ اور رخ ان کی جانب کر لیا ہے۔ ان کی نگاہیں کچھ اور جھک گئیں۔ وہ انہیں دیکھ رہی تھی۔ ان کے چہرے کی جانب۔۔۔ اس نے انہیں سرتاپا دیکھا تھا۔ سیاہ ڈریس پینٹ کے اوپر سفید شرٹ میں خوبصورت انسان۔۔۔ اور اس پر ان کی جھکی نگاہیں۔۔۔ دل نے ان کے مومن ہونے کی گواہی دی ۔وہ یونہی ڈر رہی تھی۔ اتنی دیر انتظار کیوں کروایا خدا کے اس حسین فرشتے کو۔۔؟ اگر اکتا کر واپس چلا جاتا تو؟؟ خدا کی رحمت بھی لوٹ جاتی۔۔ وہ خود کو دل ہی دل میں کوسنے لگی تھی۔مدد کی ضرورت تو اسے تھی ہی۔۔
”میرا نام سیدہ نیلم رضا علوی ہے“ وہ اب اپنی کہانی ان کے گوش گزار کر رہی تھی ***___________________________****
”میرا تعلق ملک کے امیر ترین گھرانوں میں شمار ہونے والے گھرانے میں سے ہے۔ میرے آباواجداد بے حساب زمینوں کے مالک تھے۔ دادا کے چھ بیٹے تھے۔ انہوں نے اپنی زمین اپنی اولاد میں برابر تقسیم کی۔ میرے والد کے حصے میں بھی کل زمین کا چھٹاحصہ آیا۔
0 تبصرے