”یہ عورت اندر سے ٹوٹی ہوئی ہے ۔۔بہت دکھی ہے۔ سوتیلی ماں اور بہنوں کے ظلم جھیلے ہیں اس نے ۔ ایک مظلوم انسان، خصوصاً عورت بہت حساس ہوتی ہے۔ کبھی ظلم نہیں کرتی۔ بلکہ دل سوزی اور ہمدردی کرنا سیکھ جاتی ہے۔۔۔“نیلم کی آواز انہیں سوچوں کے جال سے باہر کھینچ لائی تھی ۔

”قدرت ظلم کا بدلہ ضرور لیتی ہے فیروز صاحب۔ ۔ ۔ چند دن پہلے وہ ظالم عورت بھی سانپ کے ڈسنے سے اپنے کیفر کردار کو جا پہنچی۔ پرائے تو پرائے ہوتے ہیں فیروز صاحب۔ دکھ تب ہوتا ہے جب اپنے پرائیوں سے بڑھ کر سلوک کریں۔ بابا کے بھائیوں نے ہماری ایک ایک چیز ہڑپ کرلی ۔ہمیں گھر سے نکال دیا اور یہاں خو نخوار جانوروں کا لقمہ بنانے کو چھوڑ دیا “وہ پھر سسکیاں بھرنے لگی تھی۔ فیروز صاحب اس کے غم میں اتنا ڈوب گئے تھے کہ اس کے لفظ ”ہمیں“ پر غور ہی نہیں کیا تھا۔ وہ تو کچھ اور ہی سوچ رہے تھے ان کا دماغ بہت سے پیچ و خم کو سلجھانے کے بعد جب ایک نتیجے پر پہنچا تو وہ دل ہی دل میں مسکرا اٹھے تھے۔ نیلم ان کے بولنے کی منتظر تھی۔ مگر جب کافی دیر تک کوئی رسپانس نہ ملا تو چونک کر سر اٹھایا ۔ خلاف توقع انہیں اپنے تئیں اتنی فرصت سے مسکرا کر دیکھتے پایا تو گڑبڑائی۔ لاشعوری طور پر انہوں نے بھی فورا نگاہیں ہٹائیں۔ اب وہ اپنی کیفیت پر حیران تھے۔ اور اس سے بھی زیادہ نیلم سے شرمندہ۔