وہ کتنی دیر سے احمقوں کی طرح اسے گھور رہے تھے، انہیں خود بھی اندازہ نہ تھا۔ شام کی نیلاہٹ کو رات کی سیاہی برابر نگل رہی تھی۔
” میں جانتا ہوں نیلم کہ آپ انتہائی مشکل وقت سے گزر رہی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟؟“انھوں نے اپنی کلائی گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ انہیں اچانک وقار یاد آیا تھا جسے وہ نیلم کے چکر میں بھول ہی گئے تھے۔ اب انہیں عجب بے چینی شروع ہوگئی تھی۔
” میرا کیا ارادہ فیروز صاحب۔۔۔ بس جنگل سے کہہ سکتی ہوں کہ آ اور مجھے نگل لے۔ زمین سے کہہ سکتی ہوں کہ پھٹ اور سمالے۔ آسمان سے کہہ سکتی ہوں کہ آندھی چلا خاک اڑا اور زمانے کی گرد میں گم کر دے مجھے۔ کسی کو یاد نہ رہے کہ کوئی نیلم رضا بھی تھی ۔۔۔“اس نے دوبارہ پاؤں کنویں کی منڈیر پر رکھے۔ فیروز صاحب کی حیرت کی انتہا نہ رہی تھی۔ الفاظ پر عبور دیکھ کر وہ اسے شاعر ہ سمجھ رہے تھے ۔ اور اب وہ ساحرہ۔۔۔ مطلب شاعرہ خود کو جنگل کے حوالے کر رہی تھی۔
” کیا مطلب۔۔۔ آپ کہنا چاہ رہی ہیں کہ آپ خود کشی کرنا چاہتی ہیں؟؟؟“انہوں نے بھنوؤں کو سکیڑا۔
” جب قسمت ہی پھوٹی ہو تو ۔۔۔“
”خودکشی حرام ہے نیلم رضا صاحبہ۔۔۔!“ ان کی آواز میں غصے کی ہلکی سی آمیزش اس نے محسوس کی تھی۔