” آپ کیسے اپنی زندگی کا فیصلہ قسمت پر چھوڑ سکتی ہیں؟ اگر ایسا ہی ہوتا تو خدا محنت اور کوشش کا حکم کیوں دیتا ؟غوروفکر اور تدبر کا حکم کیوں دیتا ۔آپ نے سوچا بھی ہے کہ کیا کہا ہے آپ نے ابھی؟؟“ انہیں واقعی اس کی بچگانہ سوچ پر افسوس ہوا تھا۔ البتہ انہیں احساس ہوا کہ وہ آپے سے باہر ہو کر کچھ اونچا بول گئے تھے ۔چنانچہ لہجے کو حسب سابق نرم بنایا ۔
”دیکھیے نیلم۔۔۔ جان کی حفاظت سب پر واجب ہے۔ ۔ ۔ آپ پر بھی “
”تو کیا کروں فیروز صاحب “وہ رونے لگی تھی۔
”مجھے نہیں سمجھ آرہی کہ میں کیا کروں۔ جنگل کے بھیڑیوں کا لقمہ بننے میں زیادہ تکلیف ہے۔میں ان کا انتظار نہیں کرنا چاہتی۔۔۔“
”آپ میرے ساتھ چلیں“ انہوں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پیشکش کی۔
” آپ کے ساتھ ۔۔۔مگر کہاں؟“ وہ آنسوؤں سے تر چہرہ ان کی جانب موڑ کر حیرت سے بولی۔
” ظاہر ہے ،میں کہیں تو رہتا ہی ہونگا ناں!“وہ مسکراٸے۔
” میرا گھر “انھوں نے وضاحت کی۔
”آپ کا گھر۔۔۔ مگر میں آپ کے ساتھ کیسے جا سکتی ہوں؟“
”محترمہ یہاں کوئی خاتون نہیں ہے آپ کو لیڈیز پروٹیکشن دینے کے لیے“انھوں نے جھنجھلا کر کہا تھا۔
”آپ غلط سمجھے ہیں“ اس نے گھبرا کر جواب دیا تھا۔
”میرا مطلب تھا کہ آپ کے گھر میں آپ کی فیملی ہوگی۔وہ سب مجھے آپ کے ساتھ دیکھ کر کیا سوچیں گے؟ نہیں نہیں۔۔آپ مجھے کہیں نوکری دلوا دیجیے“
”ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔۔ یہ ذرا جنگل سے باہر نکلیں۔۔ سامنے گھر ہے۔وہاں کے مکین اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب نیلم صاحبہ آئیں گی اور کب ان بیچاروں کی زندگی کا جام پہیہ بحال ہوگا“
0 تبصرے