”تو آپ ہی بتائیے میں کیا کروں؟“اسے ان کا طنز ذرہ بھی نہیں بھایا تھا۔ وہ تو مجبوری میں کہہ گئی تھی۔
”ارے بابا جب میں کہہ رہا ہوں کہ میرے ساتھ چلیں تو اس میں پرابلم کیا ہے؟“
”آپ کی فیملی آپ کو ایک عورت کے ساتھ دیکھ کر کیا سوچے گی“اس نے سوال دوہرایا۔
”میری فیملی میں صرف ایک بیٹا ہے، پیرنٹس چھوٹے بھائیوں کے ساتھ رہتے ہیں اور میری بیوی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے“
”اوہ۔۔۔ سن کر بہت افسوس ہوا“
”چلیں آپ کی تعزیت قبول کی۔ ۔ ۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض کرتا چلوں کہ میرا بیٹا گھر میں بالکل اکیلا ہے اور مجھے جلد گھر پہنچنا ہے۔آپ کو چلنا ہے یا میں جاؤں؟“ انھوں نے عجلت میں اپنی کلائی گھڑی کو دیکھا۔
”جی۔۔۔۔ میں نے کیا کہا ہے“ حیا کی بنا پر بہ مشکل اس کی آواز نکلی تھی۔ فیروز صاحب مسکرائے۔
”آئیے۔۔۔“ وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھے۔وہ بھی ان کے پیچھے لپکی۔
”تو پھر ہمارا کیا ہو گا؟؟“ پیچھے سے زنانہ آواز آئی۔انھیں 440 والٹ کا جھٹکا لگا۔
***__--__--__--__--__--__--__--__--***
تو کیا کوئی اور بھی تھا ان کے علاوہ اس خونخوار جنگل میں۔۔۔! اور پھر، وہ انہیں اب تک انڈرآبزرویشن رکھے ہوئے تھا۔۔۔ جیسے ہی وہ روانہ ہونے لگے تھے اس نے روک لیا تھا۔ وہ بے یقینی سے پیچھے مڑے۔ پیچھے نیلم کھڑی تھی۔ چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہو رہا تھا ۔ اور اس کے ساتھ۔۔۔! اب کی بار انہیں ہزار واٹ کا جھٹکا لگا تھا ۔گھبرا کر فورا ہی انھوں نے رخ پھیرا تھا۔
”استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ“ انہوں نے بے اختیار کہا تھا۔
0 تبصرے