”نیلم ہی کو بتانا چاہیے تھا نا ہمارے بارے میں ۔۔۔ خیر میں روبینہ ہوں۔۔۔“ سب سے بڑی نے اپنی مخصوص بھاری آواز میں کہا۔ آواز کے ساتھ چوڑیوں کی کھنکھناہٹ عجب امتزاج بنا رہی تھی۔ تقریبا چالیس کے قریب روبینہ سرخ لباس اور اس کے ہم رنگ جیولری سیٹ میں تیس سے بھی کم دکھتی تھی۔ البتہ رنگت گندمی تھی۔ پھر بھی بناؤ سنگھار میں قبول صورت دکھاٸی دیتی تھی۔

” یہ مجھ سے چھوٹی زرینہ ہے“ زرینہ کی عمر 35 کے قریب تھی۔ جامنی سلیولیس بھاری کامدار لباس چست پاجامہ اور ہم آہنگ جیولری میں وہ بھی عمر سے کافی کم لگتی تھی۔

” اس کے بعد نیلم ۔۔۔اس کا تعارف تو آپ جان ہی چکے ہوں گے“ اس نے عجیب سے انداز میں اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ 

”کافی  تفصیل سے جان گئے ہوں گے“ زرینہ نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔باقی دونوں مسکرائیں۔ فیروز صاحب کا پارہ ہائی ہونے لگا تھا۔

”بائی دا وے۔۔۔ہم یہاں ہیں۔۔ آپ کے پیچھے۔۔۔“ کافی دیر سے زبان پر ہو رہی کھجلی کو بالآخر زرینہ نے دور کرتے ہوئے کہا تھا۔

”چلیں نیلم۔۔؟“انھوں نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اکتائے انداز میں نیلم کو مخاطب کیا تھا۔

”ارے۔۔۔ ایسے کیسے۔۔۔۔۔“

”باجی میرا تعارف؟؟؟“ان کی چھوٹی بہن نے رونی صورت بنا کر یوں کہا تھا گویا اگر اس کا تعارف نا کروایا گیا تو کہیں قیامت ہی آجائے گی۔

”اوہ ہاں۔۔۔ یہ ہماری ننھی نگینہ ہے“ لفظ ننھی سن کر فیروز صاحب کی ہنسی چھوٹی۔ بظاہر وہ دوبارہ دیکھ نہیں پائے تھے مگر ایک جھلک میں ان کی عمروں کا حساب خوب لگا لیا تھا انہوں نے۔ کِھلے آسمانی رنگ کے فش لہنگا ڈریس اور ہم رنگ جیولری میں وہ بڑی دونوں بہنوں سے زیادہ خوبصورت دکھاٸی دیتی تھی۔

”ہم سب سکون و چین سے رہتے تھے اپنے گھر پر۔ ۔ ۔ پھر مام ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں۔ ۔ ۔ زندگی میں خزاں آ گئی ۔اور نکال دیا اس کے تایاؤں نے ہمیں“ بڑی روبینہ نے سوگوار سے لہجے میں کہا۔

” مام ۔ ۔ ۔مجھے مام کے پاس جانا ہے۔ ۔ ۔ماما“ ننھی نگینہ سسکتے ہوئے روبینہ کے گلے لگ گئی تھی۔ اور روبینہ اسے پچکارتے ہوئے حوصلے کی تلقین کر رہی تھی۔ فیروز صاحب نے اس بیکار سے ڈرامے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے خاموشی سے قدم بڑھا دیے تھے۔ نیلم بھی خاموشی سے پیچھے لپکی۔مگر فیروز صاحب کو احساس ہوا تھا کہ وہ اچانک رک گئی ہے۔ ناچار انہیں مڑنا پڑا تھا۔وہ واقعی چلتے چلتے رک گئی تھی۔ لیکن وہ کس وجہ سے رکی تھی ۔وہ نہیں جانتے تھے۔ مجبوری یہ تھی کہ وہ نگاہیں بھی اٹھا نہیں سکتے تھے ۔کیونکہ نیلم کے برابر اس کی بہنیں کھڑی تھیں۔ گھاس زدہ زمین کو گھورتے ہوئے وہ نیلم کی بازو روبینہ کے ہاتھ میں جکڑی نہیں دیکھ پائے تھے۔ ویسے بھی اندھیرے میں اس کے تھوڑے سے چہرے کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ اگر دیکھتے بھی تو یوں لگتا گویا اس نے چادر کا پلو تھام رکھا ہے۔

” آ ۔ ۔ ۔آپ ہمیں اس جنگل کے حوالے کر کے جا رہے ہیں؟“  روبینا نے بڑی دل گرفتگی سے پوچھا تھا ۔

”نہیں۔۔۔“ انہوں نے نگاہیں جھکا ئے کہا۔  تینوں نے مسکرا کر اک دوجے کو دیکھا۔