“do you want anything my boy?”
کیفےکاؤنٹر پر موجود ادھیڑ عمر شخص نے محبت بھری مسکراہٹ سے بلند آواز میں پوچھا تھا۔ لہجے میں محبت کے ساتھ ساتھ پرانی شناسائی بھی عیاں ہو رہی تھی
“No sir.. I am waiting for someone”
اس نے بھی مسکرا کر جواب دیا ۔ادھیڑ عمر شخص نے مسکرا کر سر کو خم دیا۔ لڑکے نے ایک بار پھر اپنی کلائی پر بندھی سنہری گھڑی کی جانب دیکھا اور پھر بیرونی دروازے کی جانب نگاہ دوڑائی۔دروازے سے نگاہیں مایوس پلٹیں تو دوبارہ کانچ کی دیوار میں سیاہی مائل نیلے آسمان کو دیکھا جو مسلسل ننھے ننھے یخ بستہ موتی پھولوں اور پتوں پر برسا رہا تھا ۔اور ان ننھے ننھے سفید موتیوں نے مثل ردا ان پھولوں اور پتوں کو سفید پوش کر دیا تھا۔
یہ سردیوں کی چھٹیوں کا وسط تھا۔ اور اس اسکول میں ایسے موسم میں بھی جبکہ باہر سڑکیں، ٹریفک حتی کہ گھروں کے دروازے تک جام ہو جاتے تھے، وہ بچے سکول آتے تھے جو ہونہار اور پڑھنے والے بچے تھے۔ یا پھر آوارہ لڑکے ۔۔جنہیں گھر میں رہنے کی عادت نہ تھی ۔اور کے این کیو مے فئیر کا وہ سکول تھا جو تعطیلات میں بھی متعلمین کے لیے کھلا رہتا تھا۔ بلاشبہ یہ بھی ایک پڑھنے والا بچہ تھا۔ مگر آج وہ یہاں کسی اور مقصد کے لئے موجود تھا ۔اور کل سے وہ اس مقصد کے لیے اتنا بے چین تھا کہ کل کی پوری رات اسے نیند نہیں آئی تھی۔
اس نے گذشتہ رات تارے گنتے گزاری تھی۔ اور اب یہ بے مقصد انتظار ۔۔۔اسے اپنے دوستوں سے یہ امید ہرگز نہ تھی۔ حالانکہ اس نے ان سب کو یہ کہہ کر بلایا تھا کہ صبح کی میٹنگ بہت ارجنٹ ہے۔اور میٹنگ اٹینڈ نا والے کو ہرجانہ بھرنا ہوگا۔ چونکہ میٹنگ کا ٹاپک اس کے لئے بہت قیمتی تھا اور بہت معنی رکھتا تھا سو وہ انتظار نہیں کر پا رہا تھا۔
0 تبصرے