السلام علیکم“ ایک لڑکے کی آواز نے دونوں کو متوجہ کیا۔وہ اس کا ہم عمر تھا شاید چند ماہ بڑا تھا ،مگر لگتا اسی کی کاپی تھا ۔سوائے آنکھوں کے، کہ اِس کی آنکھیں سیاہ تھیں  اور اُس کی نیلی۔
” بڑی مہربانی آپ تشریف لائے “اس کا طنز سوا نیزے پر آیا ۔
”سلام کا جواب تو دے دے یارا“اس نے بے تکلفی سے اس کے ساتھ والی کرسی      کھینچتے ہوئے کہا ۔
”وعلیکم السلام “اس نے اس کی آنکھوں میں براہ راست دیکھتے ہوئے خلاف معمول نارمل لہجے میں جواب دیا تو بجائے شرمندہ ہونے کے ڈھٹائی سے گویا ہوا ۔
”اب غصہ تھوک بھی دے عباس۔ کیا ہوگیا ہے یارا ...آ تو گئے ہم “اور عباس کے تو تلووں میں لگی اورسرپہ بجھی۔
” اچھا...کہاں...؟دکھائی نہیں دے رہے“ اس نے غصے میں دانت پر دانت جما کر اس کے دائیں بائیں تمسخرانہ انداز سے دیکھ کر پوچھا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ بس چٹکی بجائے اور سبھی بچے عینک والا جن کی طرح ہو ہوہاہا کرتے سامنے آ جاتے۔ 
”اب بس بھی کرو عباس، سب آرہے ہیں“ اب کی بار اس نے لہجہ نرم بناتے ہوئے کہا ۔
اور پھر انہیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا۔ جاء ٹیم کےممبرزتتلیوں کی طرح اندر گھستے چلے آرہے تھے۔ تقریبا 20 بچے تھے جن کی عمریں پانچ سے چودہ کے درمیان تھیں۔ سب اب اس کو سلام کرکے اپنی نشستیں سنبھال رہے تھے۔
” کتنے شرم کی بات ہے“ عباس کی تو پ کا رخ ان سب کی جانب ہوا تو ان کی چلتی زبانوں کو تالے لگ گئے۔ عباس ایسے شیریں سخن بچے سے اس طرح کا طرز تخاطب کبھی بھی سننے میں نہیں آیا تھا ۔کجا کہ آج ۔۔۔
    اور ہوتا بھی کیوں نہ۔۔۔وہ اس شہنشاہ کا بیٹا تھا جس نے زمانے کے دو پاٹوں میں پسنے کے باوجو پوری تمکنت سے لوگوں کے دلوں پر حکومت کی تھی۔ اور آج پہلی بار ہوا تھا کہ اس شہنشاہ کے شہزادے نے اپنے دربار میں طلب کیا اور درباری وزراء اور مشراء دیر سے پہنچے تھے۔ 
”آپ سب جانتے ہیں کہ آج کتنی اہم میٹنگ ہے ۔وقت کی پابندی کے بارے میں نہیں جانتے کیا آپ؟“اس نے اپنی مخصوص مدھم مگر پر رعب آواز میں ان سب کی خیریت دریافت کرنا شروع کی۔
” حالانکہ میں نے رات اپنی” پی اے“ کے ہاتھ وقت پر آنے کا کہلا بھیجا تھا۔ یہ الگ بات کہ پی اے  خود دیر سے پہنچی ہے“ اس نے آخری فقرہ فاطمہ کو دیکھ کر ادا کیا تھا جو حسب عادت بھائی کی بات کا برا نہ مناتے ہوئے مسکرا دی تھی۔